تحریر : شاہ بانو میر پاکستانی وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں پہلی بار بہادرانہ دلیرانہ خطاب کر کے بھارتی قیادت کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ مکمل بھارتی دخل اندازی کے ثبوت پیش کر کے بھارت کو شرمندہ کر دیا ۔ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کو ذکر اور وہاں ریفرنڈم کروانے کا انقلابی پیغام بھارت کو عذاب میں مبتلا کر گیا۔ آئے روز اپنے مظالم سے نگاہ ہٹانے کیلیئے پاکستان کو کسی نہ کسی خود ساختہ دہشت گرد حملہ میں ملوث کرنا بھارت نے عادت بنا لی ہے ۔ وزیر اعظم نے بھارتی الزامات پر غیر جانبدارانہ تحقیقات کا بہترین مطالبہ کر کے بھارت کے جھوٹ کا پردہ بھی چاک کیا ۔ کئی دشمن ممالک کے ساتھ مل کر پاکستان کے بلوچستان میں جاری علیحدگی پسند تحریک کے اہم نام براہمداخ بگتی نے بھارت میں باقاعدہ شہریت کیلئے درخواست دے کر پوری دنیا پر واضح کر دیا کہ بلوچستان کے خراب حالات کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ برھان وانی کی شھادت دہائیوں سے جاری تحریک کشمیر میں پہلی بار بھارتی کے تابوت میں وہ آخری کیل ثابت ہوا جس کی شھادت کے بعد بھارت کیلئے کشمیر حلق میں پھنسا ہوا ایسا نوالہ بن گیا جو نہ اگل سکتا ہے نہ نگل سکتا ہے۔
تحریک کشمیر اب اپنی منزل کے قریب ہے اگر درمیان میں کوئی مفاہمتی فارمولہ اپنا کام نہ دکھا گیا تو۔ ایسا ہی طاقتور مظاہرہ عوام کی جانب سے جاری رہا تو وہ دن اب دور نہیں کہ کشمیر آزاد ہو کر پرسکون فضا میں ترقی کا سفر طے کرے گا ۔ سفاک بھارتی قیادت نے گزشتہ برس کئی بار پینترے بدلے مگر اندر کی خصلت کہاں بدلتی ہے ۔ جنگی جنون میں مبتلا مودی سرکار نے اپنے مکروہ چہرے پے کئی ماسک لگائے کہیں جاتی امراء جا کر محبتوں کا سفیر بنا تو کہیں عمران خان کو پیغام بھیجا کہ بھارتی وزیر اعظم سے ملنا چاہیں گے؟ جنگ اس خطہ میں کسی کیلئے بھی اچھا قدم نہیں ہے لیکن اگر بھارت جنگ مسلط کر کے سبق سکھانے کا ارادہ رکھتا ہے تو کان کھول کر سن لے ہم بھی دفاع وطن کرنا جانتے ہیں ۔ ابتداء ہماری طرف سے نہیں ہونی چاہیے کیونکہ انسانی قیمتی جانوں کا ضیاع کسی طور بہتر عمل نہیں ہے ۔ عمران خان ہوں یا نواز افسوس اس بات کا ہے کہ زبانی بیان ہم کرارے دیتے ہیں لیکن جب جب ہمیں بھارت بلاتا ہے تو ہم سر کے بل دوڑے چلے جاتے ہیں۔
48 گھنٹوں میں بھارت سے پاکستانی فنکاروں کو نکل جانے کی دھمکی ورنہ سنگین نتائج ۔ کاش پاکستان کی عوام اور فنکار غیرت کو جگا کر بھارتی فلمیں گانے اور روزگار کا مکمل خاتمہ کر دیں ۔ ورنہ جنگ صرف فوجی قربانیوں کا نام ہے عوام کا ساتھ ملے اور ہم بائیکاٹ کریں ہر قسم کی بھارتی مصنوعات کا تو اصل جیت ہے جنگ میں ۔ فطرت نے ہمسایہ ایسا دیا جو ازلی دشمن ہے اس دشمنی کو نواز شریف ہو یا کوئی اور حکمران سنہری پنی میں لپیٹ کر عوام کو جتنا مرضی سنہرا دکھانے کی کوشش کریں مگر روایتی دشمنی گاہے بگاہے موقعہ تلاش کر کے سنہری رنگ سے سیاہ ہونے میں دیر نہیں لگتی اور فورا ہی دوستی کا راگ الاپتی بھارتی سرکار سیاہ ہوتے چہروں سے تعفن بکتے دکھائی دیتے ہیں۔
Pakistan Fighter Jet
پاک فوج زندہ باد ملک میں جاری دہشت گردی کی جنگ ہو یا زلزلہ یا سیلاب یا کوئی خوفناک حادثہ الحمد للہ اس عوام کے عزائم ہمیشہ بلند رہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس عظیم ادارے کے عظیم سربراہ کی قیادت میں وہ محفوظ ہیں انشأاللہ بھارتی فوجیوں کی سرحدوں پر پیش قدمی اور اگلے مورچوں پر تعیناتی ہمارے لئے لمحہ فکریہ نہیں ہے۔ اس دشمن کی دشمنی کے ہم عادی ہیں لیکن اس وقت اگر کوئی بات فکر کرنے کی ہے تو وہ ہے اندرونی سیاسی عدم استحکام عمران خان کی قابلیت سچائی اور ان کے مطالبات سے کسی ذی شعور کو انکار نہیں مگر ان سے اختلاف ہے تو صرف اتنا کہ 79 سال سے اگر یہ ملک اتنی لوٹ مار کے بعد بھی الحمد للہ چل رہا ہے تو اس وقت خطہ کے نازک ترین حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے احتجاجی سیاست سے گریز کریں ۔ قد آور سیاسی شخصیت تھے مگر صرف ایک غیر اہم سیاسی شخصیت کے مشوروں کی وجہ سے آج مسلسل سیاسی قد کو چھوٹا کر رہے ہیں بلکہ فیصلہ کے بعد آگے پیچھے ہونا اپنی طبیعت کے برخلاف سیاسی رہنماؤں کو منانا یہ سب کمزور سیاسی حکمت عملی کی نشاندہی اُس وقت کر رہی ہے جب آپ کا ملک مضبوط سیاسی اتحاد کا متقاضی ہے۔
بھارت اگلے مورچوں پر فوجی تعینات کر رہا ہے اور یہاں ملک کے اندر عمران خان سیاسی محاذ آرائی میں سیاسی مورچہ بندی میں مصروف ہیں؟ آخر ہم کب سمجھیں گے کہ پاکستان ہے تو سیاست ہے سیاست دان ہیں ہماری کامیابی ہماری شان ہے ۔ خُدارا عوامی ترقی کا مرکز چائنہ کاریڈور نے خطہ میں طاقت کا توازن بحال کیا ہے پاکستان کو خود سے 5 حصے کم سمجھنے والے اب ہمیں برابری کی سطح پر دیکھ رہے ہیں۔ اس کا انداذہ سیاست سے نہیں بیس کروڑ عوامی ترقی کے شعور سے کریں ۔ پاکستان میں جاری غداروں کے ساتھ گٹھ جوڑ سے جاری دہشت گردی کا قلع قمع پاک فوج کے ضرب عضب کا عکاس ہے۔ ملک کو اندرونی دہشت گردوں سے پاک کیا تو بھارت سازشوں میں ناکام ہونے پر تلملا اٹھا اور اب کشمیریوں پر جاری دو مہینوں سے زیادہ نافذ کرفیو اس کا ثبوت ہے ۔ یاد رکھیں جب سامنے دشمن کی قوت کا اندازہ سامنے نظر آنے کی بجائے پوشیدہ سازشوں میں مختلف ممالک کے ساتھ اتحاد سے ہو تو سیاسی اور جنگی حکمتی عملی دشمن کے خلاف ہونی چاہیے ۔ اور ایسی بھرپور جاندار ہونی چاہیے کہ کہیں کوئی سقم نہ رہ جائے ۔ ناس وقت کشمیری مظلوم عوام سراپا احتجاج ہیں اور پاکستانی سیاستدانوں سے پر زور اپیل کر رہے ہیں کہ خُدارا اس وقت اندرونی اختلافات کو پس پشت ڈال کر پیش ِ نظر رکھیں ہم پر ڈھائے جانے والے مظالم ۔ اس سال اقوام متحدہ میں وزیر اعظم نے اپنا فرض کماحقہ خوبی سے ادا کیا ہے۔
اب ہمارے سیاستدانوں کا فرض ہے کہ وہ اس وقت ملک کے اندر مکمل یکجہتی کی فضا کو برقرار رکھتے ہوئے فی الحال سیاسی اختلافات کو وقتی طور پے عارضی بنیادوں پر ختم کر کے مکمل توجہ بھارتی میڈیا کی جاری جنگ پر مرکوز کر کے ان کے تابڑ توڑ حملوں کا جارحانہ جواب دے کر عوام میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کریں۔ پاک افواج کیلئے 65 میں عوامی جزبات اور سیاسی قیادت کی یکجہتی نے جنگ یادگار تاریخی بنا دی تھی ۔ آج بھی ہم 71 کی شکست نہیں 65 کی کامیابی دیکھنا چاہیں گے ۔ اہم ترین معاملات اس وقت ہر ملک کو در پیش ہیں ایسے میں مارچ کی نہ وہ افادیت ہے اور نہ اہمیت ۔ اللہ کی طرف سے اس موقعہ کو سیاسی بند گلی سے نکلنے کا سنہری موقعہ جانتے ہوئے تمام اکابرین سیاست سے کہنا ہے کہ عوام کی طاقت ان کا جوش ان کی تائید کو بھارت کے خلاف اور کشمیر کے حق میں استعمال کر کے خود کو سیاست میں امر کر لیں وقت کی نزاکت اور اہمیت دھرتی کا دفاع کرنے میں ہے نہ کہ دھرنا دینے میں ۔ مورچے جنگی بنانے کا وقت ہے نا کہ سیاسی مورچہ بندی اس وقت کسی کے مفاد میں ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر سیاسی جماعتوں سے بالاتر ہو کر سیاسی اکابرین وحدت قومیت پر توجہ مرکوز کریں !!! مورچے جنگی بھارت کے خلاف بنانے ہیں یا سیاسی مورچہ بندی اپنے ہی ملک کے خلاف کر کے بھارت کو شہ دینی ہے؟