برطانیہ (اصل میڈیا ڈیسک) برطانوی وزیر اعظم نے جرمن چانسلرمیرکل سے فون پر بات چیت کے دوران کہا کہ اگر بریگزٹ معاہدہ طے نہ ہو پایا تو ان کا ملک یونہی یورپی یونین سے الگ ہونے کو تیار ہے۔ انہوں نے مذاکرات کے سلسلے میں جرمنی سے مدد کی اپیل بھی کی ہے۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے بریگزٹ مذاکرات سے متعلق جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے اتوار کے روز فون پر بات چیت کی اور ان ‘اہم اختلافات’ پر تبادلہ خیال کیا جو برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین ہونے والے معاہدے میں اب بھی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اس بات چیت کے بعد برطانوی وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے پرجلد کوئی پیش رفت بہت ضروری ہے۔
بیان کے مطابق وزیر اعظم بورس جانسن نے اس بات پر خاص طور پر زور دیا کہ اس سلسلے میں پائے جانی والے’’اہم مسائل اور اختلافات کو دور کرنے کی خاطر آنے والے دنوں میں پیش رفت بہت ضروری ہے، خاص طور پر ماہی گیری کے شعبے میں اور معاشی سطح پر سب کو مساوی مواقع فراہم کرنے کے معاملے میں۔” برطانوی وزیر اعظم نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے درخواست کی ہے کہ معاہدے کے لیے بات چیت میں جو بھی رکاوٹیں ہیں اس کے حل کے لیے جرمنی کوشش کرے۔
یورپی یونین اور برطانیہ نے اس بات کی امید ظاہر کی ہے کہ رواں ماہ کے اواخر تک فریقین کے درمیان بریگزٹ کے بعد کا ایک اقتصادی معاہدہ طے پا جائے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی برطانیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کوئی معاہدہ طے نہ پایا تو وہ اس کے بغیر بھی مستقبل کا اپنا سفر جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔ جرمنی کا موقف ہے کہ بریگزٹ بغیر کسی معاہدے کے نہیں ہونا چاہیے اور وہ اس کا مخالف ہے۔
بات چیت کے بعد لندن میں برطانوی وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ جس طرح آسٹرلیا اور یورپی یونین کے درمیان کوئی اقتصادی معاہدہ نہیں ہے پھر بھی وہ تجارت کرتے ہیں اسی راہ پر وہ بھی چلنے کے لیے تیار ہے،’’آنے والے دنوں میں ایک معاہدے کا ہونا دونوں کے مفاد میں ہے، تاہم برطانیہ آسٹریلیا کی طرز کے شرائط پر بھی منتقلی کی مدت ختم کرنے کے لیے تیار ہے۔‘‘ آسٹریلیا، یورپی یونین کے ساتھ عالمی تجارتی تنظیم کے ضابطوں اور محصولات کے تحت تجارت کرتا ہے۔
اس سلسلے میں چند روز بعد ہی یورپی یونین کی ایک اہم میٹنگ ہونے والی ہے جس میں خاطر خواہ فیصلوں کی توقع ہے۔ لیکن اس میٹنگ سے چند روز قبل ہی برطانیہ نے کہا ہے کہ اگر آنے والے دنوں میں جلد ہی کوئی معاہدہ طے نہیں ہو پاتا تو پھر وہ بغیر کسی معاہدے کے ہی اپنی راہ اختیار کرنے کے لیے تیار ہے۔
بریگزٹ کے بعد برطانیہ کے یورپی یونین کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی روابط کیسے ہوں گے اس حوالے سے فریقین میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس میں ماہی گیری ایک اہم مسئلہ رہا ہے تاہم اس کے علاوہ بڑا سوال یورپی یونین کی واحد مارکیٹ تک برطانیہ کی رسائی کا ہے۔ اس سے قبل بورس جانسن نے فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں سے بات چیت میں کہا تھا کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدے کے لیے تمام راستے تلاش کرنے میں لگے ہیں۔
گوکہ برطانیہ اس برس اکتیس جنوری سے یورپی یونین سے علیحدہ ہو چکا ہے لیکن اس پر عملدرآمد اگلے سال سے شروع ہونا ہے۔ فریقین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس سال کے آخر تک باہمی تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور اس عبوری دور کے دوران مستقبل کے معاملات کا تعین کیا جائے گا۔
برطانیہ اور یورپی یونین کے لگ بھگ پچاس سالہ تجارتی تعلقات کو نئے خطوط پر استوار کرنے کے لیے بہت سارے کاروباری معاہدوں اور قانونی تقاضوں کو از سر نو طے کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے کیوں کہ بعض معاملات پر سخت اختلافات پائے جاتے ہیں۔
اگر فریقین واقعی بغیر کسی معاہدے سے ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ہیں تو اس سے ان کے درمیان تقریباً ایک ٹرلین ڈالر کی تجارت کا ایک بڑا حصہ بے یقینی کا شکار ہو سکتا ہے۔