برسلز (اصل میڈیا ڈیسک) یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں برطانیہ کو بریگزٹ کے لیے مزید تین ماہ کی مہلت دینے پر بالآخر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ ستائیس ممالک نے برطانیہ کو یہ اضافی مہلت دینے کا فیصلہ موجودہ ڈیڈلائن ختم ہونے سے صرف تین روز پہلے کیا۔
بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں یورپی یونین کے صدر دفاتر سے پیر اٹھائیس اکتوبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یونین کی طرف سے برطانیہ کو اس کے یونین سے اخراج کے لیے دی گئی موجودہ مدت 31 اکتوبر کو ختم ہونا تھی۔ لیکن اس مدت کے پورا ہونے سے صرف تین روز قبل آج 28 اکتوبر کو یورپی یونین کی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں یہ اعلان کر دیا کہ لندن حکومت کو دی گئی اب تک کی مہلت میں مزید تین ماہ کی توسیع پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔
اب تک یورپی یونین کے رکن ممالک کی کُل تعداد 28 ہے اور اس بلاک میں برطانیہ کی رکنیت کے خاتمے کے لیے دی گئی مدت میں توسیع کا فیصلہ برطانیہ کے علاوہ باقی تمام ریاستوں کو اتفاق رائے سے کرنا تھا۔
اس بارے میں ڈونلڈ ٹسک نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ”برطانیہ نے بریگزٹ کی مدت میں 31 جنوری 2020ء تک کے لیے ایک اور توسیع کی درخواست کی تھی۔ یورپی یونین میں اس بارے میں اصولی طور پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ اس فیصلے کو اب باقاعدہ تحریری فیصلے کی شکل دی جا رہی ہے۔‘‘
یونین نے برطانیہ کے بارے میں آج اپنا جو نیا فیصلہ کیا ہے، وہ لندن حکومت کو دی جانے والی ایک لچکدار رعایت بھی ہے اور بریگزٹ کی مدت میں توسیع بھی۔ اس کے لیے جو اصطلاح استعمال کی گئی ہے، وہ flextension یعنی flexible extension ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اب برطانیہ کو زیادہ سے زیادہ اگلے برس جنوری کے آخر تک اپنے بریگزٹ کے ارادوں پر عمل کرنا ہے۔ لیکن اگر لندن حکومت اس سلسلے میں لازمی قانون سازی 31 جنوری سے پہلے مکمل کرنے میں کامیاب رہی، تو برطانیہ 31 جنوری 2020ء سے پہلے بھی یونین میں اب رکنیت ختم کرنے کا مجاز ہو گا۔
یورپی یونین کی کونسل کے صدر ٹسک نے یہ اعلان آج برسلز میں اس اجلاس کے بعد کیا، جس میں اس بلاک کے برطانیہ کے سوا باقی تمام 27 رکن ممالک اس ڈیڈ لائن میں توسیع کی منظوری دینے کے لیے جمع تھے۔ اس اجلاس کے بارے میں بریگزٹ سے متعلق یورپی یونین کے اعلیٰ ترین مذاکراتی نمائندے میشل بارنیئر نے مزید کوئی تفصیلات بتائے بغیر صحافیوں کو بتایا، ”یہ ایک بہت مختصر، مؤثر اور تعمیری اجلاس تھا، جس میں رکن ممالک نے بریگزٹ کی ڈیڈ لائن میں اگلے سال جنوری کے آخر تک کے لیے مزید تین ماہ کی توسیع کی منظوری دے دی۔‘‘
برطانیہ نے یورپی یونین سے اپنے اخراج کا فیصلہ 2016ء میں ہونے والے ایک عوامی ریفرنڈم میں کیا تھا۔ اس کے بعد سے آج ایسا دوسری مرتبہ ہوا ہے کہ یونین نے لندن حکومت کو بریگزٹ کی ڈیڈ لائن میں توسیع کی اجازت دے دی ہے۔
پہلی بار لندن حکومت کو بریگزٹ کا عمل اس سال 31 مارچ تک پورا کرنا تھا، جس میں بعد میں 31 اکتوبر تک کے لیے سات ماہ کی توسیع کی منظوری دے دی گئی تھی۔
پھر برطانیہ چونکہ اس سال اکتوبر کے آخر تک بھی یونین سے اپنے اخراج کے لیے لازمی شرائط بروقت پوری نہیں کر سکا تھا، اس لیے لندن میں وزیر اعظم بورس جانسن کی حکومت نے برسلز میں یورپی قیادت سے اس مدت میں مزید ایک بار یعنی اگلے سال 31 جنوری تک کے لیے توسیع کی درخواست کر دی تھی، جو یورپی یونین نے اب منظور کر لی ہے۔
لندن سے موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق برطانیہ میں ملکی سیاستدان آج ہی اس بارے میں ایک پارلیمانی رائے دہی میں بھی حصہ لے رہے ہیں کہ آیا بریگزٹ کے بارے میں جمود سے نکلنے کے لیے وزیر اعظم بورس جانسن کی خواہش کے مطابق ملک میں 12 دسمبر کو نئے عام انتخابات کرائے جانا چاہییں۔
خدشہ ہے کہ وزیرا عظم جانسن کی یہ تجویز پارلیمانی ایوان زیریں میں دو تہائی ارکان کی لازمی حمایت حاصل نہیں کر سکے گی۔ اگر ایسا ہوا تو لیبر پارٹی سمیت اپوزیشن کی دو جماعتوں کا ارادہ ہے کہ وہ اپنے طور پر نو دسمبر کو ملک میں قبل از وقت عام الیکشن کرانے کی تجویز پر پارلیمانی ووٹنگ کرانے کی کوشش کریں گی۔