لندن (اصل میڈیا ڈیسک) برطانیہ میں اس وقت لندن حکومت کی طرف سے کی گئی درخواست کے بعد یورپی یونین کے بریگزٹ کی ڈیڈ لائن میں مزید ایک بار توسیع سے متعلق فیصلے کا شدت سے انتظار کیا جا رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ توسیع ہو بھی گئی تو ہو گا کیا؟
”براہِ مہربانی یہ وقت ضائع نہ کیجیے گا،‘‘ یہ بات یورپی یونین کی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے اس سال اپریل میں اس وقت کہی تھی، جب مارچ کے آخر میں پوری ہونے والی بریگزٹ کی گزشتہ ڈیڈ لائن میں یونین نے سات ماہ کی توسیع کی منظوری دے دی تھی۔
کافی زیادہ امکان ہے کہ یورپی یونین برطانیہ کے لیے اس مدت میں، جو 31 اکتوبر کو ختم ہو رہی ہے، مزید ایک بار توسیع کر دے۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ لندن کو برسلز نے مزید ایک بار اضافی مہلت دے بھی دی، تو برطانیہ خود کو ملنے والی اس آخری رعایت کو استعمال کیسے کرے گا؟ اس سوال کے کئی ممکنہ جوابات ہیں۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن یہ دیکھنے کے انتظار میں ہیں کہ آیا یورپی یونین کے باقی 27 ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت کے مابین اس بارے میں اتفاق رائے ہو جاتا ہے کہ بریگزٹ کے عمل کی تکمیل کے لیے مقرر کردہ موجودہ مدت کو، جو آج سے چھ روز بعد ختم ہو رہی ہے، بڑھا دیا جائے۔ اس بارے میں پہلے فیصلہ گزشتہ بدھ یعنی تیئیس اکتوبر کو متوقع تھا لیکن اب یہ فیصلہ آج جمعہ پچیس اکتوبر کو کیے جانے کا امکان ہے۔
جانس نے یورپی یونین سے توسیع کی یہ درخواست گزشتہ ویک اینڈ پر کی تھی اور انہوں نے اس مقصد کے لیے یونین کو لکھے گئے خط پر دستخط بھی نہیں کیے تھے۔ مگر ساتھ ہی انہوں نے یونین کو اپنے دستخطوں کے ساتھ ایک ایسا خط بھی لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یونین اس توسیع کی منظوری نہ دے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ بورس جانسن کی خواہش تھی کہ برطانیہ بہرصورت اکتوبر کے آخر تک یورپی یونین سے نکل جائے۔ انہیں توسیع کی درخواست لندن میں پارلیمانی ایوان زیریں کی طرف سے منظور کردہ ایک ایسے قانون کی وجہ سے کرنا پڑی تھی، جس پر عمل درآمد کا ہاؤس آف کامنز یا دارالعوام نے انہیں پابند بنا دیا تھا۔
برطانیہ کی خواہش ہے کہ بریگزٹ کی موجودہ مدت میں جنوری 2020ء کے آخر تک یعنی تین ماہ کی توسیع کر دی جائے اور اس میں یہ امکان بھی رکھا جائے کہ اگر دارالعوام کے ارکان اس مدت کی تکمیل سے قبل ہی بریگزٹ کے عمل پر متفق ہو گئے، تو برطانیہ اگلے برس جنوری کے اختتام سے پہلے بھی یونین سے نکل سکتا ہو۔
لیکن آیا بریگزٹ کی موجودہ ڈیڈ لائن میں کوئی توسیع کی جائے گی، اور اگر کی جائے گی تو کتنے عرصے کے لیے، یہ فیصلہ یورپی یونین کے رہنماؤں کو کرنا ہے۔ اس وقت تک بریگزٹ کے حوالے سے یہ امکانات موجود ہیں:
1۔ بورس جا نسن کے لیے بریگزٹ کی موجودہ ڈیل کی پارلیمانی منظوری کے لیے تیز ترین راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ ڈیڈ لائن میں توسیع کر دی جائے، برطانیہ میں کوئی نئے عام انتخابات نہ کرائے جائیں اور ٹوری پارٹی کی حکومت اپوزیشن کی لیبر پارٹی کے ساتھ ملا کر وہ ڈیل منظور کروانے کی کوشش کرے، جو جانسن نے یونین کے ساتھ کی ہے۔ لیکن یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ لندن میں پارلیمان اس ڈیل کی منظوری سے انکار کر دے۔
2۔ دوسرا امکان یہ ہو سکتا ہے کہ بریگزٹ کی ڈیڈ لائن میں توسیع ہو جائے اور وزیر اعظم بورس جانسن ملک میں نئے عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیں اور یہ الیکشن جانسن کی ٹوری پارٹی جیت بھی جائے۔ برطانیہ میں حکمران جماعت کے کئی ارکان نئے عام انتخابات کی تجویز کے خلاف بھی ہیں لیکن جانسن کہہ چکے ہیں کہ ان کی خواہش ہو گی کہ نئے الیکشن کرا دیے جائیں۔ اگر ٹوری پارٹی کو اکثریت مل گئی تو پھر وہ جانسن کی یونین کے ساتھ ڈیل کو نئی پارلیمان میں آسانی سے منظور کروا سکے گی۔
3۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ بریگزٹ کی ڈیڈ لائن میں توسیع ہو جائے، ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کرا دیے جائیں اور ٹوری پارٹی یہ لیکشن ہار جائے۔ ایسا ہوا تو لندن میں حکومت بھی تبدیل ہو جائے گی۔ پھر لیبر پارٹی چند چھوٹی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت تو بنا لے گی لیکن بریگزٹ کی تکمیل کے لیے اس حکومت کو تین ماہ کے بجائے کہیں طویل مدت درکار ہو گی۔
اسی امکان کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ وزیر اعظم بنے، تو وہ یونین کے ساتھ ایک نئی، زیادہ بہتر ڈیل طے کریں گے اور پھر اس کی منظوری کے لیے ملک میں ایک ریفرنڈم کرائیں گے، جس میں عوام کو یہ رائے دینے کے لیے کہا جائے گا کہ برطانیہ اس آئندہ ڈیل پر عمل کرتے ہوئے یونین سے نکل جائے یا پھر اب تک کی طرح مستقبل میں بھی یورپی یونین کا رکن ہی رہے۔
یہ امکانی صورت حال اپنے دورانیے کے حوالے سے بہت طویل ہو گی کیونکہ اس عمل کا ہر حصہ کئی کئی ماہ پر محیط ہو گا۔ تاہم یونین کے لیے یہ طویل عرصہ اس وجہ سے قابل قبول ہو گا کہ اس دوران یہ امکان اپنی جگہ باقی رہے گا کہ برطانوی عوام مستقبل میں شاید آئندہ بھی یونین کا حصہ رہنے کا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں۔