لندن (اصل میڈیا ڈیسک) برطانوی اپوزیشن کی لیبر پارٹی نے وزیر اعظم جانسن پر بریگزٹ کے معاملے میں ’بچوں جیسے رویے‘ کا الزام عائد کیا ہے۔ جانسن نے یورپی یونین کے نام اپنے خطوط میں بریگزٹ ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست بھی کی ہے اور مخالفت بھی۔
لندن سے ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق برطانوی پارلیمان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت لیبر پارٹی کے بریگزٹ سے متعلقہ امور کے ترجمان نے آج شام کہا کہ وزیر اعظم بورس جانسن نے برسلز میں یورپی یونین کی قیادت کو برطانیہ کے یونین سے آئندہ اخراج سے متعلق جو متضاد پیغامات دینے والے خطوط لکھے ہیں، وہ ان کے ‘بچگانہ رویے اور سوچ‘ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
بورس جانسن چاہتے ہیں کہ اب تک کے پروگرام کے مطابق اکتیس اکتوبر کو برطانیہ ہر صورت میں یورپی یونین سے نکل جائے، چاہے اس کے لیے لندن میں ملکی پارلیمان جانسن کا یونین کے ساتھ طے کردہ نیا معاہدہ منظور کرے یا نہ کرے۔
کل ہفتے کے روز برطانوی ایوان زیریں کے ایک خصوصی اجلاس میں ارکان نے اکثریتی رائے سے جانسن کی یونین کے ساتھ طے کردہ نئی بریگزٹ ڈیل پر نہ صرف رائے شماری مؤخر کر دی تھی بلکہ ایک ترمیمی قرارداد کے ذریعے انہیں اس بات کا قانوناﹰپابند بھی بنا دیا تھا کہ وہ برسلز میں یورپی یونین کو بریگزٹ کی 31 اکتوبر تک کی موجودہ ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست بھی کر دیں۔
بورس جانسن نے درمیان کا راستہ یہ نکالا کہ انہوں نے یونین کے نام ایک خط میں اپنے دستخط کیے بغیر یہ لکھا کہ وہ بریگزٹ کی ڈیڈ لائن میں ایک بار پھر توسیع کر دے۔ لیکن ساتھ ہی دوسرے خط میں، جس پر انہوں نے دستخط کیے تھے، جانسن نے یہ لکھا کہ وہ بریگزٹ کی موجودہ ڈیڈ لائن میں کسی بھی توسیع کے خلاف ہیں اور چاہتے ہیں کہ برسلز کسی نئی توسیع کی منظوری نہ دے۔
بورس جانسن نے یورپی یونین کی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک کو یہ خطوط کل ہفتے کی شام لکھے تھے۔
اس پر لیبر پارٹی کی طرف سے پارٹی کے بریگزٹ امور کے ترجمان کیئر اسٹارمر نے برطانوی میڈیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں آج اتوار کی شام کہا کہ بورس جانسن کا یہ رویہ تو بہت ہی بچگانہ ہے، ”ایک طرف وہ یونین سے بریگزٹ ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست کر رہے ہیں اور ساتھ ہی دوسرے خط میں مخالفت بھی۔‘‘
اپنے اس انٹرویو میں اسٹارمر نے کہا کہ بریگزٹ کے معاملے پر برطانوی سیاست اب جو رخ اختیار کر چکی ہے، اس کی وجہ سے انہیں یہ بات یقینی نظر آتی ہے کہ ملک میں دوبارہ عام انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہو چکا ہے۔
لیبر پارٹی کے ترجمان نے کہا، ”وزیر اعظم بورس جانسن کا رویہ اس وجہ سے بہت بچگانہ ہے کہ انہیں صرف ایک ہی خط لکھنا چاہیے تھا، جس میں وہ بریگزٹ کی 31 اکتوبر کی ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست کرتے۔ مزید یہ کہ انہوں نے اس ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست کرتے ہوئے جو خط لکھا ہے، اس پر انہیں لازمی طور پر دستخط بھی کرنا چاہیے تھے۔‘‘
کیئر اسٹارمر سے جب یہ پوچھا گیا کہ آیا بورس جانسن کی طرف سے بریگزٹ ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست کرتے ہوئے جو خط لکھا گیا ہے، اس پر ان کی طرف سے دستخط نہ کیے جانے کا معاملہ کیا عدالت میں بھی جا سکتا ہے، تو اسٹارمر نے کہا، ”مجھے یقین ہے کہ یہ بات اب عدالتی کارروائی تک جائے گی۔‘‘