قارئن ! وطن سے محبت کے جذبے قابل تعریف ہی نہیں لازوال بھی ہوتے ہیں قوموں کی زندگی میں ایسے لوگ غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں ۔اور جب گھرانہ بھی علم و عمل پر یقین رکھنے والا ہو ۔اورنئی نسل کی سوچ و فکر ،نظریہ ،زندگی کے رنگ ڈھنگ ،اسلوب و اطوار کو سنوارنے ،نکھارنے کی انتھک کوششیں کرنیوالے اُستاد کے گھرانے کا ہوتو پھر کسی دعوے سے نہیں دلیل سے حقیقی کردار کو محسوس کیا جاسکتا ہے ۔بریگیڈئیرحسن اقبال کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو فکر معاش سے آزادہوتے ہیں۔ہر بچے کی ابتدائی تعلیم و تربیت ہمیشہ ماں کی آغوش سے شروع ہوتی ہے ۔اور ماں کی سوچ ،فکر میں جس قدر پختگی ہوگی ۔وہ اولاد کو بہت اچھی بنیاد مہیا کرنے کی سبب بنے گی۔ بلندی اس پیمانے سے دیکھی جاسکتی ہے ۔کہ برگیڈئیرحسن اقبال سپورٹس میڈیسن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے کیلئے بیرون ملک جارہے تھے توماں کی صحت خرابی پر جب اُنھوں نے جانے سے لیت و للل سے کام لینے لگے۔
ماں نے کہا ”بیٹا تم پر پاکستان کا سرمایہ لگا ہے اسے کسی طور ضائع نہیں ہونا چاہیے تم جائو ”چنانچہ وہ بیرون ملک چلے گئے ،ماں اس دُنیا سے رخصت ہوگئیں۔فوج کی زندگی میں اکثرو بیشتر اپنے ماں باپ عزیز و اقارب کی خوشیوں ،جنازوں تک پہنچنے سے بھی محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔لیکن ایک سپاہی کیلئے اپنے پیشہ وارانہ مقصد زیادہ عظیم ہوتا ہے ۔حسن اقبال صاحب نے ماں باپ کے جنازے نہیں دیکھے۔لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر دوبارہ زندگی ملتی ہوتی ،تب بھی میں فوج میں ہی جانا پسند کرتا ،کیونکہ یہی عملی زندگی ہے جو بامقصد ہے ۔اور لاوزال کردار کیساتھ بیتائی جاتی ہے۔بہرحال حسن اقبال صاحب اب ریاست میں بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں ،شیخ زیدہسپتال /کمبائنڈ ملٹری ہاسپٹل کی بہتری کیلئے دوسال انتھک کوششوں کے بعد پوسٹنگ ہوچکی ہے۔ لیکن پاک فوج کے مایہ ناز بریگیڈئیرمظفرآباد میں لاکھوں لوگوں کیلئے کام کرتے ہوئے ڈھیروں دعائیں ہمراہ لیکر جارہے ہیں۔ تشکرکے جذبے ،دعائیہ کلمات کیساتھ کسی ایک مریض کی آنکھ سے نکلا ہوا آنسو بہت معنی رکھتا ہے ۔ اور اس لحاظ سے جناب بہت خوش نصیب ہیں۔ بریگیڈئیر حسن اقبال آرمی میڈیکل کور سے تعلق رکھتے ہیں اور سپورٹس میڈیسن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے رکھی ہے ۔یوں توملک میں اس طرز کے اور بھی ڈاکٹرزہونگے ۔لیکن پاک فوج کی بات کیجائے تو وردی میں یہی واحد ڈاکٹر ہیں۔
انکے علاوہ ایک سابق بریگیڈئیر بھی سپورٹس میڈیسن میں ڈاکٹرہیں۔فوج میں پیشہ وارانہ کردار کو سب سے زیادہ اہمیت دیجاتی ہے ۔چنانچہ اب تک کی اپنی 29سالہ فوجی زندگی میں بریگیڈئیرحسن اقبال نے اپنے کام سے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کے معاملے میں کسی طور کمی کوتاہی نہیں کرنا چاہتے ۔آسان الفاظ میں کہا جائے تو فوج میں کام کی عزت ہے۔جو جس قدر زیادہ پروفارم کریگا ،اُسکا کام خود بولے گا۔جہاں کام بولتا ہے وہاں فوجی کو بولنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آرمی میڈیکل کور ،چاہے زمانہ جنگ ہویا زمانہ امن ،ہر دور میں ایک طرح سے ایک ایسا محاذ ہے جو کبھی ٹھنڈا نہیں ہوتا ۔ایک ایسی جنگ ہے جو ہمیشہ جاری رہتی ہے۔زندگی اور صحت کا بہت اہم تعلق ہے ،صحت ہے تو زندگی ہے ،اگر صحت نہیں تو زندگی بھی نہیں ،یوں بھی یہ انسانی بنیادی حقوق میں سب سے زیادہ اہمیت والا شعبہ ہے۔جہاں ایک ڈاکٹر نے ہمہ وقت انسانی زندگی کو بچانے کی جنگ لڑنا ہوتی ہے ۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو آرمی میڈیکل کور ،ہماری بہادر مسلح افواج اور شہریوں کی زندگی کو محفوظ بنانے کیلئے ہروقت بروقت خدمات کی انجام دہی کیلئے مستعد دیکھا جاسکتا ہے۔بریگیڈئیرحسن اقبال دوسال پہلے جب مظفرآباد آنے کے بعد چوبیس میں کم ازکم اٹھارہ گھنٹے مریضوں سے متعلق معاملات پر صرف کرتے رہے۔
ایک سال تک اپنے ڈپٹی کمانڈنٹ کرنل عابدحسین (بعد میں برگیڈئیر)کے تعاون سے گزرا ۔باقی وقت میںموجودہ ڈپٹی کمانڈنٹ کرنل ذوالفقار علی خان نے اپنے کمانڈر کے ویژن پر متحرک رہ کر تعاون کیا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کمبائنڈ ملٹری ہسپتال مظفرآباد میں فوج اور س سے متعلقہ مریضوں کی تعداد سال بھرمیں دولاکھ کے لگ بھگ ہوتی ہے ۔جبکہ سول مریضوں کی تعداد آٹھ لاکھ کے قریب ۔ 2016 میں اُسوقت کے کمانڈنٹ برگیڈئیرچوہدری فیاض صاحب کے دور میں اُنکے ڈپٹی کمانڈنٹ برگیڈئیرعابد حسین نے اپنے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے جذبے سے سرشار رہتے ہوئے ”یوم یکجہتی ”پر بلڈ ڈونیشن کیمپ لگانے کی روایت ڈالی اور خود خون دیا۔اسکے اگلے سال بھی یوم یکجہتی کشمیرکے موقع پر دوسری بار برگیڈئیرعابد حسین نے دوسری بار خون دیاتھا۔جبکہ گذشتہ سال موجودہ ڈپٹی کمانڈنٹ کرنل ذوالفقار علی خان ،لیفٹیننٹ کرنل تیمور بابر ،لیفٹیننٹ کرنل رشید ،کیپٹن حارث ،کیپٹن سعد ،کیپٹن فعد ،کیپٹن مزمل حسین عدیگر فوجیوں کے علاوہ ڈاکٹر سہیل کاظمی اور ڈپٹی میڈیکل سپرٹنڈنٹ ڈاکٹر نعمان منظور بٹ نے خون کے عطیات دئیے ۔اسکے علاوہ یوم آزادی پر ریلیوں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ بھی چل نکلا۔یوں تو کسی بھی مشکل صورتحال ،آزمائش میں پاک فوج اپنے لوگوں کی مدد کیلئے سب سے پہلے آن موجود ہوتی ہیں ۔ اور جذبہ ایثار و قربانی سے سرشار سولجر ،سردار صاحبان ،افسران ،سینئر افسران کسی دکھاوے ، بناوٹ کے بغیر اپنے شہریوں کی زندگیوں پر آنیوالی آزمائشیوں میں کندھے سے کندھا ملائے کھڑی رہتی ہیں ۔ابھی تازہ ترین لیسواہ نیلم واقعہ بھی سب سے سامنے ہے ۔کس طرح فوج نے سرگرمیاں کیں ۔برگیڈئیرمرتضیٰ موقع پر موجود اور براہ راست ریکسیو آپریشن کو لیڈ کرتے رہے ۔بنہ فوٹو سیشن کی سوچ ،نہ کسی دعوے کی ضرورت ۔۔۔ ۔ بس اپنے لوگوں کیلئے مرہم بننا ہے ۔اور ہر ممکن مدد اور دلجوئی کرنی ہے ۔ کہتے ہیں جس پر مصائب و مشکلات ،دکھوں کے پہاڑ گرتے ہیں،اُسے کندھا چاہیے۔
ایسا کندھا جس پر سر ٹکا کر روئیں۔اور اس حوالے سے دیکھا جائے تو پاک فوج آزمائشوں سے دوچار شہریوں کیلئے ایک مضبوط آسرا ،ایک ایسا کندھا ہے جو ہر مصیبت کی گھڑی میں پاس ہوتا ہے۔ ۔سبھی جانتے ہیں کہ فوج مختلف آزمائشوں میں نا صرف مدد کرتی ہے ،بلکہ جانتی ہے کہ دکھ کی گھڑی میں انسان رنج و الم کی ایسی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے کہ اُسے مدد ،دلجوئی اور رونے کیلئے کندھا چاہیے ۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے توپاک فوج کی مدد ،دلجوئی ،اور کندھا ہمہ وقت اپنوں ّ(عوام)کیلئے موجود رہتا ہے۔ اب تو کورکمانڈر لیفٹیننٹ بلال اکبر بھی لیسوا سانحہ کے حوالے سے معاملات کا جائزہ لے چکے۔جن دنوں نیلم میں پل ٹوٹنے سے بہت سی اموات ہوئی ،زخمیوں کی بھی اچھی خاصی تعداد تھی۔تب مجھے یاد ہے ،کہ شیخ زیدہسپتال سی ایم ایچ مظفرآباد میں مکمل طور پر ہنگامی حالت نافذ تھی ۔اور برگیڈئیرحسن اقبال ،ایکٹنگ ڈپٹی کمانڈنٹ کرنل امجد اور ڈی ایم ایس نعمان بٹ شعبہ ایمرجنسی کے باہر گھنٹوں موجود رہے۔اس دوران وزیرصحت ڈاکٹر نجیب نقی بھی حادثہ کے شکار جاں بحق اور زخمیوں سے متعلق براہ راست معلومات لیتے رہے ۔بریگیڈئیرحسن اقبال دوسال تک شیخ زیدہسپتال سی ایم ایچ کے کمانڈنٹ کے طور پر خدمات انجام دے چکے ۔فوج میں انتظامی لیول پر خدمات انجام دینے کا وقت مقرر ہے ،چنانچہ کسی بھی سطع پر کمانڈ کرنیوالے کوشش کرتے ہیں کہ وہ بہتر سے بہترین کا سفر جاری رکھیں۔ اپنے دورانیہ میں شیخ زیدہسپتال سی ایم ایچ میں مریضوں کے علاج ومعالجہ کے سلسلے میں بہت زیادہ مستعدی کا مظاہرہ کرکے ایک نئی روایت ،نئی مثال چھوڑی ہے۔ماضی میں کمانڈنٹ صبح کے وقت پورے ہسپتال کا دورہ کیا کرتے تھے۔توانھوںنے شام کے اوقات میں بھی دورے کی روایت ڈالی ۔اور دن کے کسی بھی پہر ہسپتال کے کسی بھی شعبہ میں کب پہنچ جائیں کوئی نہیں جانتا تھا۔چنانچہ ہسپتال میں وہ سبھی لوگ حاضر پائے جاتے ،جنہیں بہرصورت مریضوں کیلئے خدمات انجام دہی کیلئے سرکار نے متعین کررکھا ہے۔
شعبہ ایمرجنسی کے باہر موجود وسیع ایریا پر شیڈ بنوایا ،تاکہ نیلم سمیت دور افتادہ علاقوں سے مریض لیکر آنیوالے افراد استفادہ کرسکیں ۔مریضوں کیساتھ آنیوالے لوگوں کو موسمی معاملات سے قطعی نظر بیٹھنے کی مناسب جگہ میسر رہے ۔ خواتین کی او پی ڈی کے باہر مکانیت میں توسیع کروائی ،وہاںپنکھے اے سی لگوائے گئے ،تاکہ خواتین اور بچے موسمی شدت سے محفوظ رہیں۔خصوصاََ رات کو ٹھہرنے کیلئے ممکنہ طور پر ایک سہولت مہیا کی ۔اپنے دور میں ہسپتال کی مکانیت کا معاملہ بھرپور توجہ میں رکھ کر بچوں کے وارڈ نئے بلاک میں منتقل کرکے خواتین کیلئے مذید بستروں کا انتظام یقینی بنایا ۔ شعبہ اطفال کو فنکشنل کرنے میں بہت مستعدی کا مظاہرہ کیا۔اگر چہ سٹاف کی کمی سمیت متعدد رکاوٹیں حائل رہیں ،مگر اُنھیں خاطر میں نہیں لایا اور بچوں کا شعبہ (چائلڈ وارڈز)نئے بلاک میں منتقل کروایا ۔اور دستیاب وسائل سے ہی حل نکالا ۔جسکا باقاعدہ افتتاح جناب وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان نے کیا۔اسی طرح شہداء خاندانوں کیلئے خصوصی ڈیسک قائم کیا۔جبکہ سابق فوجیوں ،بزرگ شہریوں کیلئے رہنمائی اور سہولت کیلئے اقدام کیا۔چونکہ سی ایم ایچ میں نصب سی ٹی سکین ،ایم آر آئی مشینوں نے اپنی سروس پوری کرلی ہے ۔اس لئے باربار ان کی خرابی سے مریضوں کو درپیش مشکلات کو دُور کرنے کیلئے ہر ممکن کوششیں کیں اور کنسرن اتھارٹیز کیساتھ معاملہ اُٹھاتے رہے۔چنانچہ بہت سی تجاویز آتی رہیں ۔لیکن اب کہیں جاکررواں ماہ31 جولائی تک ٹینڈر متوقع ہے (نشرطیہ پھر کہیں کوئی کاریگری نہ ہوئی تو)۔۔۔
شیخ زید ہسپتال سی ایم ایچ کی خدمات اور ملنے والے وسائل میں بہت زیادہ فرق کیوجہ سے درپیش مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے جہاں تک ممکن ہوا ۔کوشش کی ،کہ حکام کو باور کرایا جاسکے ۔کہ فنڈزکی تقسیم” ورک لوڈ” کو مدنظر رکھ کر کی جائے تو ”کام ”کی حوصلہ افزائی ہوگی ۔اب جبکہ بریگیڈئیر حسن اقبال پوسٹ ہوئے ہیں ۔شیخ زیدہسپتال سی ایم ایچ میںمکانیت کی گنجائش 400بستروں تک پہنچ چکی ہے۔ بریگیڈئیرحسن اقبال کے والد محترم کے شاگردوں میں وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان سرفہرست ہیں ۔اس بناء پروزیراعظم کیساتھ کمانڈنٹ کا ایک ”احترام کا رشتہ”ہونے سے شیخ زیدہسپتال سی ایم ایچ کو درپیش مسائل میں سر فہرست مکانیت کا مسئلہ بھی اُٹھایا گیا۔جسکے بعد وزیراعظم کی دلچسپی سے یو اء ای کے سفیررواں سال رمضان المبارک سے پہلے مظفرآباد شیخ زیدسپتال سی ایم ایچ کے دورہ میں بریفنگ لینے کے بعد وعدہ کرکے گئے ہیں ۔کہ دوبارہ آئیں گے ۔اور سیکنڈ فیز کے حوالے سے معاملات کو حتمی شکل دی جائیگی۔خدا کرے یہ معاملہ بھی جلد حل ہوسکے ۔اب فوجی حکام اور سول انتظامیہ کیساتھ دیگر کنسرن اتھارٹیز کو دیکھنا ہوگا کہ شہریوں کی زندگی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔صحت ہوگی تو زندگی ہوگی زندگی ہوگی تو تعلیم ودیگر معاملات ہونگے۔چنانچہ ریاست کی اولین ذمہ داری شہریوں کی صحت و زندگی کا تحفظ ہے ۔اتنا اہم معاملہ کسی کو فائدہ دینے کی نیت سے بگاڑا نہیں جا سکتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بریگیڈئیرحسن اقبال کا جلایا ہوا چراغ ،گل نہ ہو ،بلکہ اس میں تیل ڈالا جائے کہ روشنی دے ۔چونکہ انھوں نے ”پیشنٹ کئیر”پر سمجھوتہ نہیں کیا یہ سلسلہ یقینی طور پر قائم رہیگا مگر جن معاملات پر توجہ دینا ،حل کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے ،مناسب ہے کہ ریاست ”ہسپتال”جیسے اہم مرکز کو روزگار /نوازشات کا ذریعہ نہ بننے دے۔ورک لوڈ کا جائزہ لینا کوئی راکٹ سائنس نہیں جو کنسرن اتھارٹیز کیلئے معمہ بنے ۔اس لئے شیخ زیدہسپتال سی ایم ایچ کے ورک لوڈ کو مدنظر رکھ کر فنڈز کا معاملہ دیکھا جانا چاہیے۔قابل ذکر امر ہے کہ ریاست میں کسی بھی ہسپتال کی سالانہ اوپی ڈی تین لاکھ کا عد عبور نہیں کرپاتی ۔جبکہ اس دوران داخل مریض بھی دس ہزار کے لگ بھگ ہی ہوتے ہیں ۔جبکہ مظفرآباد کا کمبائنڈ ملٹری ہاسپٹل ّجوکہ درحقیقت سول ہسپتال ہی ہے) اس اعتبار سے قابل ذکر ہے کہ اس میں سالانہ اوپی ڈی دس لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔جبکہ داخل مریضوں کی تعداد بھی چالیس ہزار سے زائد ہوتی ہے۔اسکے علاوہ ٹراما کیسز اڑھائی لاکھ سے زائد یہیں آتے ہیں۔کمبائنڈ ملٹری ہاسپٹل میں سالانہ چالیس ہزار مریضوں کو کھانادیا جاتا ہے۔جسکے لئے80 لاکھ روپے دئیے جاتے ہیں۔
مریضوں کو تواتر سے کھانابھی ملتا ہے ؟یہ الگ بات ہے کہ دیگر ہسپتالوں میں کھانا دینے کی بہت ہی کم روایت ہے ۔البتہ کھانے کی مد میں اچھی خاصی رقم مختص ہوتی ہے۔بہرحال ریاست میں پاک فوج کی عوام میں مقبولیت کا زیادہ تر کریڈٹ آرمی میڈیکل کور ،اسکے بعد اگلے علاقوں میں متعین انفنٹری یونٹس اور سگنل کور کو جاتا ہے۔گر ہم آزادکشمیرکی بات کریں تو مظفرآباد ،راولاکوٹ میں کمبائنڈ ملٹری ہاسپٹلز کام کررہے ہیں ۔درجنوں فیلڈ ہاسپٹلز کے ساتھ ساتھ سارا سال فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد بھی جاری رہتا ہے ۔فوج اور عوام کے اشتراک سے کئی جہت سے سرگرمیوں کے دورس اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔جنکی کاوشوں سے عوام کے سامنے فوج کا بہت ہی خوبصورت چہرہ اُبھرتا ہے۔پاک فوج سے عوام کا براہ راست واسطہ سرحدی علاقوں میں پڑتا ہے۔یا کسی قدرتی آفت ،تباہی کی صورت میں فوج ہی واحدساتھ ہے جو سخت مصائب و مشکلات ،صدماتی کیفیت سے دوچار عوام کی مدد کیلئے آن موجود ہوتا ہے۔ عوام کو فوج کا ساتھ حاصل رہنے پر فخر ہوتا ہے۔تو فوج بھی اپنے ہم وطنوں کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتی۔ بریگیڈئیر حسن اقبال تو صرف دو سال کیلئے آئے ،مگر یہاں شہریوں کو بہتر طبی سہولیات کی فراہمی کیلئے بہت محنت کی ۔اگر اسی طرح ہماری یہاں کہ سرکاری ذمہ داران شہریوں کی طبی سہولیات کیلئے اپنا فرض منصبی ادا کرنے لگیں تو منظر کتنا شاندار ہوگا سوچا جا سکتا ہے۔