تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی دسمبر کی ٹھنڈی یخ صبح دھند نے پو رے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا میں روزانہ کی طرح گھر سے دفتر کی طرف رواں دواں تھا شدید دھند کی وجہ سے حدِ نگاہ نہ ہو نے کے برابر تھی صبح کا وقت پورا شہر سڑکوں پر اُبل پڑا تھا لوگ دفاتر کا روباری مراکز بچے والدین سکو ل کالجوں کی طرف بھا گنے کی کوشش کر رہے تھے سائیکل مو ٹر سائیکل رکشے ویگنیں کا ریں سکول بسیں اور پیدل لو گ اوپر سے شدید دھند انسان جو فطری طور پر بے چین اور بے صبرافطرت کا حامل ہے وہ دوسروں کو روندنے کی ناکام کو شش کر رہا تھا بے پنا ہ ٹریفک اور شدید دھند کی وجہ سے ٹریفک چیونٹی کی رفتار سے چل رہی تھی شدید ٹریفک کے با وجود ہر کو ئی کان پھا ڑنے والا ہا رن بجا ئی جا رہا تھا ہا رن تو اُس وقت بجا نا چاہیے سڑک خالی ہو اور آپ کے آگے جا تے والا جان بو جھ کو آپ کو راستہ نہیں دے رہا لیکن یہاں تو سب کچھ جانتے ہو ئے بھی بے چین اور جھگڑا لو لو گ ایک دوسرے کو قہر آلو د نظروں اور زبان سے گالیوں کا طو فان اگلتے ہو ئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کو شش کر رہے تھے اوپر سے مو ٹر سائیکل سواروں نے سب سے زیا دہ تنگ کیا ہوا تھا سو ئی برابر بھی جہاں جگہ نظر آتی یہ وہا ں گھس جا تے۔مو ٹر سائیکل سواروں کی اِن حما قتوں کی وجہ سے ٹریفک نظام اور بھی درہم برہم ہو جا تا ہے۔
زندگی کسی حد تک مفلوج ہو تی نظر آرہی تھی ہر کو ئی اپنا راستہ بنا نے کے چکر میں تھا اسی دوران ایمبولینس کا سا ئرن بجنا شروع ہو گیا ہم لوگ ایمبولینس کو راستہ دینا چاہتے تھے لیکن ہم ایک زنجیر کی طرح سست روی سے چل رہے تھے ٹریفک کی زنجیر سے نکلنا ہما رے لیے ناممکن تھا اِسی دوران اگر کسی کی کا ر رکشہ یا موٹر سائیکل سے لگ جا تی تو ٹریفک ایک دم بند اور دونوں فریق آگ برساتے دھا ڑتے گالیاں بکتے ایک دوسرے پر برس پڑتے ہر کو ئی خو د کو چنگیز خا ن کی اولاد اور دھرتی کا واحد فرعون ثابت کر نے پر تلا ہوا تھا گالیوں کے شرمناک تبا دلے کے بعد بعض ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو جا تے کو ئی لڑ رہاتھا کو ئی بیچ بچائو کی ناکام کو شش کر رہا تھا لوگوں میں صبر ایثار قربانی دوسروں کو برداشت کرنے کا حو صلہ ہی نظر نہیں آرہا تھا لگ رہا تھا مہذب انسانو ں کی بجائے جانوروں کا ریوڑ ہے جو ایک دوسرے کو کاٹ کر آگے بڑھنے کی کو شش کر رہا ہے یہ با ت کو ئی بھی ما ننے کو تیا ر نہ تھا کہ سست روی کی وجہ بے پنا ہ ٹریفک اور شدید دھند ہے اِس میں کسی کا بھی قصور نہیں ہے لیکن انسانوں کے اندر حیوانیت جلد با زی بے چینی تکبر غرور ظلم خو د پسندی دوسروں کو نیچا دکھا نے اور اپنی برتری ثابت کر نے کا حیوانی جذبہ ٹریفک کے سدھار کی بجا ئے بگاڑ کا سبب بنا ہوا تھا۔
اسی دوران ہم پٹرول پمپ کے پاس سے گزرے تو وہاں بھی لمبی قطاریں اور پٹرول پہلے ڈلوانے کے چکر میںکچھ لوگ قطار کے آخر میں لگنے کی بجا ئے سب سے آگے گا ڑی گھسیڑنے کی کو شش کر رہے تھے کہ میں لمبی قطار میں انتظار کی زحمت ے کیوں دو چار ہوں دوسرے تو کمی کمین لوگ ہیں میں دوسروں سے ممتا ز ہوںمیری چار آنکھیں دوسر’ دو دماغ 4 ہاتھ چار ٹانگیں ہیں دنیا میں مجھے دوسروں پر حکومت اور اپنی مرضی کر نے کا پورا اختیار ہے میںطاقتور ہوں میرا کو ئی عزیز رشتے دار کسی بڑی پو سٹ پر ہے یا میں کسی طاقتور خاندان کا چشم و چراغ ہوں میرے اوپر کو ئی قانون یا اخلاقی ضابطہ لاگو نہیں ہو تا میں جو مرضی کروں مجھے کون روکے گااسی دوران کو ئی سیا سی لیڈر وزیر وغیرہ کی گا ڑی کو پولیس والے پہلے نکالنے کے چکر میں تھے پو لیس اور با ڈی گارڈ وں کی ڈیوٹی بھی تھی کہ اشرفیہ اور بڑے لوگ کیوں انتظار کریں انتظارتو غریب عوام ہی کر تی ہے۔
Heavy Traffic
پولیس افسران اور بیوروکریٹ کی گا ڑیاں تمام قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہو ئے اپنی من مانی کر تی نظر آرہی تھیں کسی کے روئیے سے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ وقت پر نہ پہنچا تو آج ہی حشر برپا ہو جا ئے گا ٹریفک کی سست روی پر بھکا ریوں کی چاندی ہو گئی تھی اُنہوں نے لوگوں پر ایک قسم کا حملہ کر دیاتھا وہ خو فناک حد تک لوگوں سے پیسے لینے کے چکر میںتھے رنگ برنگے بھکا ریوں اور ڈرامہ با زوں نے الگ سے لوگوں کا جینا حرام کیا ہواتھا اگر آپ اُن کو پیسے نہ دیں تو یہ کمزور دل لوگوں کی نفسیات سے کھیلتے ہو ئے اُنہیں بد دعائیں دینی شروع کر دیتے ہیں ہیجڑوں اور بھکا ریوں کی بلیک میلنگ سے ڈرتے ہو ئے لو گ جان چھڑانے کے لیے بڑے نو ٹوں کی بھیک اِن کو ڈرتے ہو ئے دے دیتے ہیں اِن بھکا ریوں اور خو اجہ سرائوں کی تو عید لگ رہی تھی کیونکہ یہ جس گاڑی کو پکڑ لیتے پیسے لے کر جان چھو ڑتے اِن بھکا ریوں نے مختلف روپ بہروپ اپنا رکھے تھے کو ئی اندھا بن کے بیٹھا ہے کو ئی مریض کو ئی بیو ہ کو ئی حا دثے کا شکا ر کسی نے پرچے پر درد ناک داستان لکھ رکھی ہے جس کو پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کو ئی انتہا ئی پراسرار طریقے سے سڑک کنا رے بیٹھا یا بیٹھی ہے کسی نے شیر خواد بچوں کو بلیک میل کے طور پر اٹھا یا ہوا ہے کسی عورت نے یتیم بچوں کی فوج اپنے گلے لگا رکھی ہے کو ئی عین سڑک کے درمیان اپا ہج بن کر خو د کو گھسیٹ رہا ہے اُس کی حالت دیکھ کر مسا فر اپنا پرس اُس کے سامنے ڈھیر کر دیتا ہے کو ئی مر گی کا مریض ہونے کا ڈرامہ کر ر رہا ہے کہ اُس کو دورہ پڑا ہوا ہے اُس کے گلے میں پر چہ لٹکا ہوا ہے کہ یہ مر گی کا مریض ہے اِس کی اطلا ع اِس نمبر پر دیں یا گاڑی میں بٹھا کر گھر چھوڑ آئیں یا گا ڑی کا کرایہ دیں۔
اِس کے علا وہ بھکا ریوں کی بڑی تعداد اخبا ر کھلونے اور صفائی والے تو لیے بیچنے کی ادا کا ری کر تے نظر آتے ہیں اِس طرح وہ یہ ثابت کر نے کی کو شش کر تے ہیں کہ پیشہ ور بھکا ری نہیں ہوں بلکہ میں تو با عزت طو ر پر روزی کما نے کی کو شش کر رہا ہوں انہیں میں روٹی مانگنے والے بھکا ری بھی ملتے ہیں جو ہر ایک سے کھانے کے پیسے مانگتے ہیں ما دیت پرستی میں غرق اور حیوانیت کے عروج پر حیوان نما انسانوں کا مشاہدہ کر تے ہو ئے ہم آخر کا ر نہر پر آگئے یہاں پر ٹریفک بہتر ہو گئی ہما ری گا ڑی اب دوڑنے لگی اچانک میزبان ڈرائیور نے گا ڑی روکی میںنے دیکھاکہ سڑک کنا رے ایک بو ڑھا آدمی اپنی بیٹی کے ساتھ کھڑا تھا وہ شاید اپنی بیٹی کو سکو ل چھوڑنے جا رہا تھا اُس کا پٹرول ختم ہو گیا تھا اب وہ اپنی مو ٹر سا ئیکل کو الٹا کر کے پٹرول کے چند قطرے حاصل کر نا چاہ رہا تھا تا کہ پٹرول پمپ تک جا سکے میرا میزبان دروازہ کھو ل کر ڈگی کی طرف گیا پٹرول سے بھری بو تل نکالی اور اُس شخص کے پا س جا کر اُس کی مو ٹر سائیکل میں پٹرول کی بو تل خا لی کر دی۔
بو ڑھے شخص نے تحسین آمیز نظروں سے اُس کی طرف دیکھا مو ٹر سائیکل سٹا رٹ کی اور چلا گیا میں اپنے میزبان کے اس خو شگوار عمل سے بہت متا ثر ہوا اُس نے میری طرف دیکھا اور بو لا سر میں ہمیشہ اپنی کا ر میں دو بو تلیں پٹرول کی رکھتا ہوں جیسے ہی کو ئی ضرورت مند نظر آتا ہے۔ اُس کو دے دیتا ہے ہوں اور فوری طو ر پر پھر بو تلیں پٹرول سے بھر لیتا ہو ں میرے پاس ضروری آلا ت بھی ہیں میں تھو ڑا بہت گا ڑی کے انجن کو بھی ٹھیک کر لیتا ہوں میں خو شگوار حیرت سے اُس کو دیکھ رہا تھا وہ نہایت شیریں لہجے میں بتا رہا تھا کہ ہم چند دوست بچپن سے یہ کام کر تے آ رہے ہیں کہنے کو تو یہ چھوٹا سا کام ہے لیکن مشکل وقت جس کو ضرورت ہو تی ہے اُس کے لیے یہ مسیحائی کا اعلی مقام ہے آگے جا کر اُس نے اپنی بو تلیں پھر بھر لیں کسی اور ضرورت مند کے لیے میں جو انسانوں کو حیوانیت میں غرق دیکھ رہا تھا اچانک مجھے خو شگوار معطر جھونکے کا احساس ہوا کہ اِس بانجھ مر دہ معا شرے میں ایسے روشن چہرے بھی ہیں جن کے کردار اور چھو ٹی سی مددسے وہ نو ر نکلتا ہے جس کی روشنی اور خو شبو سے مردہ انسانوں کی روحیں بھی مہکنے لگتی ہیں مجھے اُس روشن چہرے کے سامنے بڑے بڑے حا جی نماز ی کیڑے مکو ڑوں کی طرح نظر آئے۔
PROF ABDULLAH BHATTI
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956