تحریر : پروفیسر رفعت مظہر ہندوبنیئے نے تقسیم ِ ہندکو کبھی بھی دِل سے تسلیم نہیںکیا ۔پاکستان کاوجود اُس کے دِل میںہمشہ کانٹے کی طرح چبھتارہا ۔بھارت آج بھی پاکستان کولخت لخت کرنے کے لیے دہشت گردی سمیت ہرحربے کوجائز سمجھتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایسے عیارومکارپڑوسی کی ریشہ دوانیوںسے بچنے کے لئے پاکستان کوہر وقت چوکنارہنا پڑتاہے۔جب دسمبر 1971ء میںپاکستان کودو لخت کرنے کے بعد بھارت نے 1974ء میںایٹمی دھماکہ بھی کرلیاتو ذوالفقارعلی بھٹومرحوم نے یہ سوچتے ہوئے کہ دنیاکی تیسری بڑی فوج ،چوتھی بڑی فضائیہ اورپانچویں بڑی بحریہ کامقابلہ روایتی ہتھیاروںسے نہیںکیا جاسکتا ،یہ فیصلہ کیاکہ پاکستان بھی ایٹم بم بنائے گا۔ بھٹومرحوم نے کہا”گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم بنائیںگے”۔جواباََاُس وقت کے امریکی وزیرِخارجہ ہنری کسنجرنے اُنہیں”نشانِ عبرت”بنا دینے کی دھمکی دی اورپھر ضیاء الحق کے ذریعے اُس دھمکی پرعمل درآمدبھی کرکے دکھایا۔ بھٹوتو سولی پرچڑھ گئے لیکن پاکستان کاایٹمی پروگرام جاری رہااور محسنِ پاکستان ڈاکٹرعبد القدیر کی سربراہی میںہمارے ایٹمی سائنس دانوںنے ناممکن کوممکن کردکھایا۔
بظاہرتو یہ کسی الف لیلوی داستان کاایک حصّہ ہی لگتاہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ تمامتر دھمکیوں، خباثتوںاور ریشہ دوانیوںکے باوجودہمارے سائنس دانوںنے جدوجہدکی لازوال داستانیںرقم کرتے ہوئے انتہائی قلیل مدت میںایٹمی طاقت کاجھومر پاکستان کے ماتھے پرسجا دیا۔ یوںتو پاکستان1983ء میں ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکاتھا اور1984ء میںایٹمی دھماکوںکے لیے چاغی اورخاران میںسرنگیںبھی کھودی جاچکی تھیں لیکن سیاسی مصلحتیں آڑے آتی رہیںاورڈیڑھ عشرے بعددھماکے کرپائے۔ ایٹمی صلاحیت کے حصول کے بعدکہوٹہ کی سکیورٹی مذیدسخت کردی گئی ۔اُن دنوںہم ملازمت کے سلسلے میںکہوٹہ میںمقیم تھے جہاںانتہائی سخت سکیورٹی کا مشاہدہ ہم اپنی آنکھوںسے کرتے رہتے تھے۔ اگرکسی کام کے سلسلے میںراولپنڈی جاناپڑتاتوواپسی پرجگہ جگہ سکیورٹی کلیئرنس کا سامناکرنا پڑتا۔
انتہائی سخت سکیورٹی کے باوجودکئی غیرملکی جاسوس پکڑے گئے اوریہی نہیںبلکہ کئی سفارت کاروںکی ”دھنائی” بھی ہوئی۔ اُدھرہمارا ایٹمی پروگرام تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواںدواں تھااور اِدھرغیرملکی جاسوس ”سُن گُن” لینے کے چکرمیں ”پھینٹی”کھاتے رہے ۔اُنہی ایام میںبھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کی ٹھانی،بات ضیاء الحق کے کانوںتک پہنچی تووہ فوراََ ”کرکٹ ڈپلومیسی”کے تحت بھارت جاپہنچے۔ ایئرپورٹ پراستقبال کے لیے آئے ہوئے بھارتی وزیرِاعظم راجیوگاندھی تھوڑی دورکھڑے تھے۔
Zia ul Haq
ضیاء الحق خوداُن کی طرف بڑھے ،راجیونے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایالیکن ضیاء الحق نے اُنہیںگلے سے لگاکراُن کے کان میںکہاکہ پاکستان ایٹم بم بناچکاہے اوراگر بھارت نے جارحیت کی توپاکستان ایٹم بم چلانے سے دریغ بھی نہیںکرے گا۔ خودبھارتی مصنفین کے مطابق راجیوگاندھی کارنگ پیلاپڑ گیااور ٹانگوںکی لرزش نمایاںطور پرنظر آنے لگی۔ضیاء الحق مرحوم کے اِس اعلان کے بعد ”لالہ جی”کو خوداپنی جان کے ”لالے” پڑگئے اورپاکستان پرچڑھائی کاپروگرام ہَوا ہوگیا۔ مئی 1998ء میںبھارت نے چار ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کومجبور کردیا کہ وہ بھی اپنی ایٹمی صلاحیت کااعلان کرے کیونکہ اِن ایٹمی دھماکوںکے فوراََبعد بھارت نے ہرسطح پردھمکی آمیزلہجہ اختیارکرلیا ۔یوںمحسوس ہوتاتھا کہ جیسے بھارت کوسرے سے یقین ہی نہ ہوکہ پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کرچکا ہے۔
بھارتی دھماکوںکے بعدنوازلیگ کی حکومت توایٹمی دھماکوںکے لیے تیارتھی لیکن بہت سے تجزیہ نگارمخالفت میںپیش پیش۔اُنہیں ہرگز احساس نہیںتھاکہ بھارت کی نِت نئی دھمکیاںہماری غیرتوںپر تازیانہ ہیں۔ میرے آقاۖ کافرمان ہے ”اللہ غیرت مندہے اورغیرت مندوںکو دوست رکھتاہے”۔ مومن کی توشان ہی یہی ہے کہ وہ غیرت وحمیت کامجسمہ ہوتاہے ۔سچ کہا اقبال نے غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
بھرپور عوامی مطالبے کومدِنظررکھتے ہوئے اُس وقت کے وزیرِاعظم میاںنواز شریف صاحب نے ایٹمی دھماکوںکا ارادہ کر لیا۔جب یہ طے ہوگیا کہ پاکستان ایٹمی دھماکاکرنے کوہے تو بین الاقوامی”چودھریوں”نے آسمان سَرپر اُٹھالیا ۔پڑوس میںہونے والے ایٹمی دھماکوںپر تویہ ”چودھری” خاموش ہی رہے لیکن جب اُنہیںپتہ چلاکہ عالمِ اسلام کاایک ملک بھی ایٹمی طاقت بننے جارہا ہے تواُن کے پیٹ میں ”مروڑ” اُٹھنے لگے۔ امریکی صدربِل کلنٹن نے ایک طرف تولالچ کاہتھیار استعمال کیاجبکہ دوسری طرف معاشی پابندیوںکی دھمکی بھی دے ڈالی ۔اِس کے باوجودمیاں نوازشریف صاحب ڈٹے رہے اوربالآخر28 مئی 1998ء کا دِن آن پہنچاجب ساری دنیاکو پتہ چل گیاکہ پاکستان عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بن چکاہے ۔
Chagai Bomb Test
28 مئی کی سہ پہرپاکستانی قیادت اورایٹمی سائنس دان چاغی کی پہاڑیوںپر نظریںجماے کھڑے تھے ۔جونہی چاغی کی پہاڑیوںپر سفید دھوئیںکی چادرپھیلی ،فضاء تکبیرکے نعروںسے گونج اُٹھی ۔کئی سَرسجدے میںگرے اور وفورِ مسرت سے بہت سی آنکھیںنَم ہوگئیں۔صرف پاکستانی ہی نہیں،پورے عالمِ اسلام کاسَر فخرسے بلند ہوگیا۔یہ پاکستان کی تاریخ کاایسا روشن ترین دِن ہے جسے ہمیشہ یادرکھا جائے گا۔ یہ وہی دِن ہے جب بلوچستان کے ضلع چاغی کی پہاڑیوںسے اُٹھتے سفیددھوئیں نے ہندوبنیئے کے چہرے پرمایوسیوں کی کالک تھونپ دی اوراُس کے طاقت کے زورپر پاکستان کے حصّے بخرے کرنے کے منصوبے خاک میںملا دیئے۔چار بھارتی ایٹمی دھماکوںکے مقابلے میںپاکستان نے پہلے چاغی میںپانچ دھماکے کیے اورپھر چھٹادھماکہ خاران کی پہاڑیوںمیں بھی کرکے دشمن کو یہ واضح پیغام دے دیاکی وطن کی مٹی کی حفاظت کے لیے ہم کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں۔
ایٹمی طاقت بننے کے فوراََبعد پاکستان کواقتصادی پابندیوںکا سامناکرنا پڑا۔ یہ پابندیاں حسبِ سابق پاکستان کے ”دوست”امریکہ نے ہی لگائی تھیں۔عجیب بات ہے کہ جب بھی کوئی پاک بھارت تنازع اٹھا، ہمارے اِس ”دوست” کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہی رہا۔ 65ء کی جنگ میںہم امریکہ کی اقتصادی پابندیوںکا شکارہوئے اور 71ء کی جنگ میںہم ساتویںامریکی بحری بیڑے کاانتظار کرتے ہی رہ گئے اورملک دولخت ہوگیا۔ اُدھرامریکہ نے پاکستان پرپابندیاں لگائیںلیکن اِدھر برادراسلامی ملک سعودی عرب نے اِن پابندیوںکی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے تیل کے کنوؤںکا رُخ پاکستان کی طرف موڑدیا۔
ایٹمی دھماکوں کی مناسبت سے مجتبیٰ رفیق نے اِس دِن کانام ”یومِِ تکبیر” تجویزکیا جسے نام کا انتخاب کرنے والی کمیٹی نے بے حدپسند کیا ۔واقعی یہ نام بہت خوبصورت اوربا معنی ہے کہ جب تکبیرکا نعرہ بلند ہوتاہے تو تائید ونصرتِ ربی بھی اِس میںشامل ہوجاتی ہے۔ مجتبیٰ رفیق آجکل بے روزگاراور اربابِ اختیارکی عدم توجہی کاشکارہے۔حکمرانوںکو ایسے باصلاحیت افراد کی صلاحیتوںسے فائدہ اٹھاناچاہیے کہ اسی میںملک وقوم کابھلاہے۔