تحریر: نجیم شاہ ایک طالب علم کسی یونیورسٹی میں داخلہ لینے گیا۔ گیٹ پر کھڑے چوکیدار سے پوچھا یہاں کی پڑھائی کیسی ہے۔ چوکیدار نے کہا بہت عمدہ ہے۔ پڑھائی کے بعد فوراً نوکری مل جاتی ہے میں نے بھی یہیں سے ایم بی اے کیا ہے۔ اسی طرح ایک ایم بی اے کے اسٹوڈنٹ نے ایک چپڑاسی سے کہا، میرے پاس علم ہے، ڈگری ہے، چار لوگوں میں عزت ہے تمہارے پاس کیا ہے؟ چپڑاسی نے جھٹ سے جواب دیا ”میرے پاس نوکری ہے”۔ اوپر بیان کئے گئے دونوں لطائف اس وقت پڑوسی ملک بھارت کے موجودہ ملکی اور معاشرتی حالات کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں۔ خبر ہے کہ بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں انجینئر اور پوسٹ گریجویٹ امیدواروں کے درمیان چپڑاسی اور چوکیدار بننے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ مدھیہ پردیش پروفیشنل اکزامنیشن بورڈ ڈویژن (ویاپم) نے الگ الگ محکموں میں درجہ چہارم سے کل 1333 آسامیوں کیلئے امتحان لیا تھا۔ اس میں چار لاکھ سے زیادہ اُمیدوار شامل ہوئے۔
یہ امتحان دینے کے لئے کم از کم آٹھویں پاس ہونا ضروری تھا۔ امتحان دینے والوں میں 62 ہزار سے زیادہ گریجویٹ ہیں۔ اس سے بھی کہیں زیادہ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ 15ہزار سے زیادہ ایم کام، ای ایس سی اور ایم اے کرنے والے پوسٹ گریجویٹ بھی چپڑاسی اور چوکیدار بننے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ ان میں 1400 تو انجینئر ہیں جنہوں نے بی ٹیک کیا ہے اور ایک امیدوار نے بتایا کہ اُس نے سال 2012ء میں مائیکرو بائیولوجی میں ایم فل کیا ہے۔ اس تحریری امتحان میں اٹھارہ سے چالیس سال عمر کے ہر طبقہ کے 4لاکھ 3ہزار 712 اُمیدواروں نے حصہ لیا۔ یعنی ایک پوسٹ کیلئے 305 اُمیدوار ہیں۔ قبل ازیں ستمبر میں بھارتی ریاست اترپردیش میں چپڑاسی کی 368 آسامیوں کیلئے 23 لاکھ درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں بی ٹیک، بی ایس سی، ایم ایس سی اور ایم کام کے ساتھ ساتھ 255 پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز بھی شامل ہیں۔
اس نشست پر درخواست گزار کی اہلیت صرف پانچویں پاس رکھی گئی تھی لیکن درخواستوں کی جانچ پڑتال کے دوران پتہ چلا کہ ان آسامیوں پر پی ایچ ڈی کے حامل افراد بھی کام کرنے کو تیار ہیں۔آن لائن موصول ہونے والے فارمز میں کئی پی ایچ ڈی ڈگری یافتہ لوگوں نے وجہ یہ بیان کی کہ چپڑاسی کی نوکری کرنا فاقے کرنے اور بیروزگار رہنے سے کہیں بہتر ہے۔ اس معاملے میں زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ نوکری کیلئے درخواست دینے والوں میں صرف 53 ہزار افراد ایسے ہیں جو پانچویں جماعت پاس ہیں جبکہ 20لاکھ سے زائد افراد اپنی سکول کی تعلیم مکمل کر چکے ہیں۔ریاستی حکام کا کہنا ہے کہ معمولی آسامی کیلئے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی بڑی تعداد میں آنے والی درخواستوں کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اب یہ آسامیاں صرف انٹرویو کی بنیاد پر ہی پُر کی جائیں گی۔ اِس سے قبل اگست میں بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میں معمولی سرکاری آسامیوں کیلئے 75000 درخواستیوں موصول ہونے پر سرکار نے بھرتیوں کا منصوبہ ہی منسوخ کر دیا تھا۔
Unemployment India
ریاست کا محکمہ معیشت اور اعداد و شمار اس وقت حیران اور پریشان ہو گیا جب چپڑاسی کی 30 آسامیوں کیلئے درخواستوں کا سیلاب اُمڈ آیا۔ درخواستیں دینے والوں میں انجینئر اور ایم بی اے گریجویٹ بھی شامل تھے۔ بھارت دنیا میں اپنی خوشحالی اور عوام دوست اقدامات کے دعوے کرتا نہیں تھکتا لیکن وہاں غربت اور بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ پی ایچ ڈی کے حامل افراد چپڑاسی کی نوکری کیلئے بھی مارے مارے پھر رہے ہیں۔ نوجوان انتہائی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ایسی نوکریاں کرنے کو بھی تیار ہیں جہاں انہیں پیغام رسانی اور برتن دھونے کا معمولی کام بھی کرنا پڑے۔اس مسئلے کی جڑیں بھارت کے ناقص معیارِ تعلیم میں بھی پیوست ہیں۔
کروڑوں افراد بھاری بھر کم ڈگریاں تو رکھتے ہیں لیکن درحقیقت ان میں اہلیت اور مہارت معمولی سی بھی نہیں پائی جاتی۔ بالی ووڈ کی فلموں اور عالمی میڈیا پر بھارت کو عموماً بڑا ماڈرن بنا کے پیش کیا جاتا ہے۔ بھارت کا حکمران طبقہ پوری کوشش کرتا ہے کہ آسمان چھوتی عمارتوں اور عالیشان پلازوں کے سائے میں پنپنے والی کچی آبادیوں اور جھونپڑ پٹیوں میں حیوانوں کی سی زندگی بسر کرنے والے کروڑوں انسانوں پر کسی کی نظر نہ پڑے تاہم نام نہاد جدیدیت کی مصنوعی زرق برق بھارت کے طول و عرض میں پائی جانے والی معاشی و سماجی بدحالی کو چھپانے سے قاصر ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے کرنے والے بھارتی حکمران یہ بتانا شاید بھول جاتے ہیں کہ محرومی اور غربت کا سب سے بڑا ارتکاز بھی بھارت میں ہے۔