وہ 11 ستمبر 2001ء کی ایک روشن صبح تھی ۔ہر لحاظ سے کرہء ارضی کی واحد سپرپاور امریکہ کی عالمی معاشی طاقت کے مرکز نیویارک میں واقع، دنیا بھر کی کاروباری کمپنیوں کے دفاتر پر مشتمل دو بلند و بالا عمارتیں جنہیں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کہا جاتا تھا، اچانک زمین بوس ہو گئیں۔ اس پر امریکہ ہی نہیں دنیا بھر میں کہرام مچ گیا تو امریکہ نے کہا کہ اس کے ہوائی اڈوں سے 4مسافر طیارے لگ بھگ ایک ہی وقت میں اغوا ہوئے اور پھر 2 کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دو ٹاوروں سے ٹکرا دیا گیا۔
اغواء ہونے والا تیسرا طیارہ دنیا میں ناقابل شکست سمجھی جانے والی امریکی عسکری پاور کے مرکز پینٹاگون سے جا ٹکرایا تو وہاں بھی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ بتایا گیا کہ چوتھا طیارہ کسی ایسے ہی ہدف کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اسے پنسلوانیا کے مقام پر فوج کی جانب سے میزائل مار کر گرایا گیا۔
اس واقعہ کے بعد امریکہ کی جانب سے چار طیاروں کی تباہی اور ان کے مقررہ اہداف پر گرنے کے باعث 2977افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوئی تو یہ بھی بتایا گیا کہ طیارے اغوا کر کے انہیں مخصوص اہداف سے ٹکرانے والے ہائی جیکروں کی تعداد 19تھی۔
ساری دنیا کو بدل کر رکھ دینے والے اس واقعہ کے چند گھنٹوں بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اس سب کا ذمہ دار اسامہ بن لادن رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کو قرار دیا۔ پھر امریکہ نے 7 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر یہ کہہ کر حملہ کر دیا کہ وہاں نائن الیون کے اس واقعہ کے ذمہ دار موجود ہیں جنہیں ہر صورت سزا دی جائے گی۔ اس حملے کا نام آپریشن اینڈ یورنگ فریڈم (آپریشن پائیدار آزادی) رکھا گیا تو ہر لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ نے اس کے لئے ساری دنیا کو اپنا اتحادی بنایا تھا۔
پرویز مشرف کا امریکی ہیبت و دہشت کے سامنے پتہ پانی ہو ا تھا ۔یوں اس کمزور ونحیف اور دنیا کی سب سے چھوٹی معاشی طاقت پر چڑھائی کر کے اپنے اسلحہ خانوں کا ہر وہ ہتھیار آزمایا تھا جو وہ بنا چکا تھا۔ امریکہ کی اس بمباری اور جنگ میں لگ بھگ 8لاکھ افغان شہری جام شہادت نوش کر چکے ہیں تو افغانستان پر امریکی حملے کو بھی 13سال مکمل ہوگئے ہیں لیکن امریکہ کہہ رہا ہے کہ وہ ابھی تک نائن الیون کے سارے ذمہ داروں تک پہنچ نہیں پایا ہے۔ 13 سال کا عرصہ… امریکہ کی بے پناہ بمباری، ہر طرح کی ٹیکنالوجی کا استعمال، بلکہ ہر روز عالمی مایہ ناز اسلحہ ساز کمپنیوں کی جانب سے نئے سامان جنگ کی تیاری اور فراہمی، بے پناہ دولت، اندھے وسائل، عالمی اتحاد اور ہر طرف سے مدد و حمایت کے باوجود امریکہ نے افغانستان سے کیا پایا؟ اس سوال کا جواب آج بھی دنیا مانگتی ہے۔
USA
لیکن امریکہ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔ البتہ وہی امریکہ جس کے صدر بش سینئر پدر بش جونیئر نے ”نیوورلڈ آرڈر” کا نظریہ 1992ء میں پیش کر کے یہ کہا تھا کہ وہ اب ساری دنیا کو اپنے اس نظریے کے مطابق چلائیں گے اور ان کے اس نظریے اور قانون کے بغیر کوئی ملک اور کوئی انسان حرکت نہیں کر سکے گا، ابا بش اور پتر بش کے دفان ہو جانے کے بعد اسی امریکی میں نیو ورلڈ آرڈر کی باقیات ملنا بھی مشکل ہیں۔ امریکی قوم ”نیوورلڈ آرڈر” کا نام بھی بھول چکی ہے ان کا کوئی ذمہ دار تو کجا عام شہری بھی ”نیو ورلڈ آرڈر” کا لفظ زبان سے ادا کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ اب تو ہمارا بھی سوال ہے کہ کوئی اس نیو ورلڈ آرڈر کی قبر تو ہمیں دکھائے۔یہی نہیں اب انہیں یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ افغانستان کے کمبل سے کیسے جان چھڑائی جائے؟
13 سال بیتے ہر سال 11 ستمبر آتا ہے۔ ایٹمی بٹن ہاتھ میں رکھ کر خود کو دنیا کو کسی بھی وقت مکمل تباہ و برباد کرنے کا خیال لئے دنیاکا طاقتور ترین انسان کہلانے والے امریکی صدر اور اس کے ہمنوائوں کی گردنیں جھک جاتی ہیں۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں اور پھر بھرائی آواز میں ملک کے دفاع کا فولادی عزم ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں سارے امریکہ میں اس روز سپرپاور کا پرچم سرنگوں ہوتا ہے تو ہر طرف سوگ چھا جاتا ہے۔ کیا یہ وہی امریکہ ہے کہ جس نے افغانستان میں اپنی پیادہ فوج اس وقت اتاری تھی کہ جب اسے سوفیصد یقین ہو گیا تھا کہ اب زمین پر اس کے سامنے کھڑا ہونے والا کوئی آدم زاد نہیں بچا۔
اس لئے تو ان کے افغانستان پر قبضہ کے وقت صرف دو فوجی ہلاک ہو پائے تھے لیکن اب اسی امریکہ کے میڈیا کے بقول افغان کہساروں سے ٹکرانے کی کوشش میں ان کے لاکھوں فوجی پاگل، نفسیاتی و اعصابی مریض بن کر ہمیشہ کیلئے ناکارہ ہو چکے ہیں۔ امریکہ کے ہسپتال ان فوجیوں کے علاج کے لئے تنگ پڑ چکے ہیں تو یہ فوجی اب دنیا کی سختیوں سے جان چھڑانے کیلئے ہر ماہ سینکڑوں کی تعداد میں خودکشیوں کے ذریعے موت کو سینے سے لگا رہے ہیں جنہوں نے خود کشیوں کے بھی ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ افغانستان میں لائی جانے والی امریکی جنگی ٹیکنالوجی اور جنگی مشینری اس پیمانے پر تباہ ہوئی ہے کہ اب اسے امریکہ خود توڑ توڑ کر کباڑ کی شکل میں بیچ رہا ہے اور یہ کباڑ اتنا زیادہ ہے کہ امریکہ دنیا کا سب سے بڑا کباڑیہ بن چکا ہے۔
امریکہ نے افغانستان میں جس ننھی منی امارت اسلامی کی حکومت الٹی تھی، اس کے سربراہ ملا محمد عمر کی دھول تک بھی وہ نہیں پہنچ سکا، نیز تو اس نے خود ہی ان کے اہم ترین قیدیوں کو رہا کر کے انہیں قطر پہنچا دیا اور ان سے مذاکرات کر کے اپنی ”کامیاب پسپائی” کیلئے راہ ہموار کرنا شروع کی۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ افغانستان میں امریکی جنرل مارے جائیں گے؟ دنیا کے سب سے زیادہ سکیورٹی رکھنے والے علاقوں میں سے ایک… یعنی کابل شہر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے اس قدر غیر محفوظ ہو جائے گا کہ ان کے دشمن جب چاہیں گے ان کے سارے حصار روند کر انہیں خاک و خون میں تڑپا کر رکھ دیں گے۔
13 سال کے عرصہ میں افغانستان سے لے کر یورپ، آسٹریلیا اور امریکہ تک جگہ جگہ اس جنگ کے زخم لگے ہوئے ہیں، افغان قوم کا ہر دن لہو رنگ ہے لیکن خود کوخداسمجھنے والے” افغان باقی کہسا ر باقی” کے سامنے اپنی بقا کی بھیک مانگتے سربسجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آج بھی انسانی تاریخ کا سب سے بڑا جنگی اتحاد نیٹو اور انسانی تاریخ کی سب سے بڑی جنگی طاقت امریکہ ہے مگر دونوں ہمارے دور میں افغانیوں کے ہاتھوں ایک ساتھ ذلت سے دوچار ہو کر الٹے قدموں بھاگ رہے ہیں۔ نائن الیون کا خوف امریکہ ہی نہیں دنیا کے دلوں پر آج بھی اس قدر قائم ہے کہ امریکہ نے نائن الیون کی جگہ جو نیا” فریڈم ٹاور” بنایا ہے۔
اس میں لوگ آج بھی اپنے کاروباری دفاتر قائم کرنے سے ڈرتے ہیں۔ 11 ستمبر 2014ء کو خبر آئی کہ 1776 فٹ بلند اس عمارت کے اکثر دفاتر آج بھی خالی ہیں اور لوگ اس قدر عمارت کے قریب جانے سے کانپتے ہیں کہ کہیں یہ بھی ان پر نہ گر جائے۔ امریکہ نے کتنے قلعہ جنگی، کتنے دشت لیلیٰ اور کتنے قندھار و قندوز افغانیوں کے خون سے تربتر کئے لیکن وہ اپنے بدنام زمانہ گوانتانامو کے قید خانے میں کسی ایک قیدی کو بھی زیرنہ کر سکا اور کہنے پر مجبور ہوا کہ یہاں سے نکلنے والے لگ بھگ اکثر قیدی دوبارہ اس کے خلاف محاذ جنگ پہنچ گئے ہیں۔ ہمارے ملک و معاشرے میں بسنے والے کتنے لوگ آج بھی اس امریکہ کو ”خدا” مانتے اور اس کی طاقت کو سجدہ کرتے ہیں تو ان کی عقل پر پڑے پردوں پر حیرانی بھی ہوتی ہے کہ وہ کب شیطان کے مقابلے میں رحمان کی طاقت کے قائل ہوں گے؟ کیا اس وقت جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرح جوتے ان کے سر پر بھی برسیں گے؟