تحریر : منظور فریدی اللہ کی بارہا حمدو ثناء اور فخر کائنات جناب محمد مصطفی کریم کی ذات بابرکات پر لاکھوں درود وسلام کہ جس کی بدولت آج ہم ایک آزاد خطہ ارضی کے مالک ہیں اور وطن عزیز پاکستان ہمارے پاس موجود ہے اور انشااللہ یہ ابد الآباد تک قائم بھی رہیگا یہ الگ بات ہے کہ جس کلمہ طیبہ پر اس کی بنیا د رکھی گئی اسکے مطابق اسے کوئی قیادت نہ ملی جو بھی آیا اس نے ہمیشہ عوامی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے کرپشن لوٹ مار کا بازار گرم کیے رکھا اور پھر باری کے لیے لائن میں لگ گیا یوں چند خاندانوں نے باری باری سیاسی پارٹیوں کی شکل میں بھیس بدل کر تو کبھی چہرے بدل کر اسے لوٹنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر اسکی اساس کلمہ طیبہ پر ہے اور کلمہ خدا لم یزل کا ابدی اعلان ہے جو حشر تک گونجتا رہیگا اور انشا اللہ پاکستان بھی نہ صرف موجود رہیگا بلکہ اسے وہ قیادت بھی نصیب ہوگی جو اللہ اور اسکے رسول ۖ کے فرامین کے مطابق حکمرانی کریگی یہ امید یہی آس ہے جو ہم جیسے نامساعد حالات رکھنے والے لوگوں کو بھی زندہ رکھے ہوئے ہے حقیقت میں ریاست اداروں سے اور ادارے افراد سے چلتے ہیں جب تک ہر فرد اپنا فرض پوری ایمانداری سے ادا کرتا رہے۔
ریاست مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جاتی ہے لیکن جب افراد کو ریاست کے ارباب اقتدار اس امر پہ مجبور کر دیںکہ بغیر رشو ت سفارش یا دیگر کسی ناجائز ذرائع کے انہیں ان کا حق نہیں ملنے والا تو کرپشن کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے بدقسمتی سے اس ملک میں وزیر اعظم سے لیکر ایک خاکروب تک اپنی سیٹ پر پہنچنے میں یہی ذرائع استعمال کرتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارا ہر ادارہ اور اس میں کام کرنے والے افراد ڈنکے کی چوٹ پر کرپشن کرتے ہیں بلکہ اسے وہ اپنا حق سمجھتے ہیں اب سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے کہ فلاں ادارہ میں کرپشن ہو گئی فلاں میں ہوگئی حتیٰ کہ ہمارے چیف جسٹس آف پاکستان جنہیں اسلام قاضی القضاء کہتا ہے اور انہیں سب کا محاسبہ کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے لیکن جناب بھی صرف بیانات میں ہی فرما رہے ہیں کہ سارے ادارے کرپٹ ہیں تو اصلاح کون کریگا۔
آج میں اپنے قارئین کو سوشل میڈیا پر کرپشن کی بحث میں سب سے اوّل آنے والا ادارہ واپڈا کی کرپشن کا حال بیان کرونگا جس میں شامل تمام تر ناقابل تردید ثبوت اکٹھے کرنے کیلئے راقم کو ایک سال کا ظویل عرصہ لگا ہر محکمہ کی طرح واپڈا کو بھی مختلف حصوں میں تقسیم کرکے جو سب سے چھوٹا علاقہ بنتا ہے اسے سب ڈویژن کہتے ہیں اس کے انچارچ افسر کو عوام ایس ڈی او صاحب کے نام سے جانتی ہیں میرے علاقہ میں آنے والا سب ڈویژن جو کہ دو گرڈ اسٹیشنوں سے چلنے والے پانچ فیڈرز پر مشتمل ہے ہر فیڈر پر ایک لائن سپرنٹنڈنٹ ،دو لائن مین ،دو اسسٹنٹ لائن مین،تعینات ہوتے ہیں یہ آپریشنل ٹیم بجلی کی ترسیل میں چوبیس گھنٹے اپنے اپنے فیڈر پر موجود رہتی ہے مگر ہمارے سب ڈویژ ن میں لائن سپرنٹنڈنٹ کو تو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ اس کا فیڈر کہا ں سے شروع ہوتا ہے اور کون کون سے علاقے اس میں شامل ہیں۔
Wapda Employee
لائن مین چونکہ بھرتی ہوتے وقت ایک بھاری رقم دیکر بھرتی ہوتے ہیں اس لیے لائنوں کے قریب آنا وہ بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں اسسٹنٹ لائن مینوں میں سے جو مالی لحاظ سے مضبوط ہو وہ بھی اپنا کام دوسرے ساتھی سے کرواتا ہے اب بیس ،پچیس دیہاتوں پر مشتمل ایک فیڈر کو چلانے کیلئے ایک اسسٹنٹ لائن مین وہ بھی رشوت یا سفارش سے بھرتی ہوا ہو تو علاقہ کو کیسے سنبھالتا ہے اس کے لیے وہ سول آبادی سے اپنے ہم خیال اور بجلی کا کام جاننے والے چند سول بندے بھرتی کر لیتا ہے جن سے وہ لائنوں کی مرمت ،ٹرانسفارمرز کی تبدیلی ،نئے کنکشن لگانا عدم ادائیگی پر کنکشن کٹوانا حتیٰ کہ بجلی کے متعلقہ سار ے کام کرواتا ہے او ر ان کو مزدوری اپنی تنخواہ سے دینے کی بجائے ان کے ذریعے عوام سے مال اکٹھا کرکے اپنا حصہ، اپنے ایل ایم کا حصہ، ایل ایس کا حصہ اور ایس ڈی او تک مناسب حصہ پہنچاتا ہے اس کی غیر موجودگی میں یہ سول بندے اپنے علاقہ کے بجلی مالک ہوتے ہیں اور جب چاہیں جمپر اتار کر بند کر دیں اور نذرانہ لیکر چلا دیں مال اکٹھا کرنے کے نت نئے طریقے ایجاد کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
قانون کے مطابق جب کسی لائن میں خرابی آجائے تو دو گھنٹے کے اندر سپلائی بحال کرنا متعلقہ ایس ڈی او کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر جب چھوٹے ملازمین ا ور سول طبقہ سے رشوت لیتا ہو تو یہ قانون بے اختیار ہو جاتا ہے علاقہ میں ٹائوٹ مافیا کے ذریعے ہمارے ایس ڈی او صاحب نے رشوت کے جو نرخ مقرر کر رکھے ہیں وہ نظر قارئین ہیں اگر کسی دوسرے علاقہ کے ریٹ کم ہوں تو ان سے معذرت اور اگر کہیں ذیادہ ہو تو وہ ہمارے ایس ڈی کی مثال دے سکتے ہیں یاد رہے کہ یہ آپریشنل ٹیم کے نرخ ہیں میٹر کلرکس بجلی چوری کروانے کے جو نرخ مقرر کرتے ہیں وہ اپنے آئندہ کالم میں پیش کرونگا آج صرف انہی پر گزارہ کیجیے گا۔
کیونکہ میرے سب ڈویژن میں درجنوں دیہات ایسے ہیں جہاں بجلی بغیر کسی میٹر کے فکس چٹی پر چل رہی ہے اور ہر گھر کیلئے علیحدہ ریٹ ہے نقدی کے ساتھ زرمبادلہ بھی چلتا ہے جس کیلئے قارئین کرام سے وقت کا طالب ہو ں تاہم جو نرخ یہاں بیان کر رہاہو ں یہ ان چیزوں کے ہیںجو صارفین کوسرکار فراہم کرتی ہے اور انکی کوئی قیمت نہیں ہوتی علاقہ میں کوئی ٹرانسفارمر جل جائے تو سرکار نے متبادل مہیا کرنا ہوتا ہے۔
Electricity Bills
مگر ہمارے صاحب کا ریٹ 10000سے 40000 تک جاتا ہے پیسسے کی جلد ادائیگی ،بجلی کی جلد بحالی کی شرط بھی لاگو ہے پچھلے دنوں ہم نے اپنی مارکیٹ کے ٹرانسفارمرزکے مبلغ 35000ادا کرنے میں تھوڑی تاخیر کی جس نے ہمیں 36گھنٹے بجلی سے محروم رکھا بارش یا کسی اور وجہ سے میٹر جل جائے تو بے شک وہ مسجد کا ہی کیو ں نہ ہو موصوف سنگل فیز کے 4/5ہزار کمرشل ہو تو 7/8 ہزار اور اگر خدانخواستہ میٹر تھری فیز ہو جو کہ آٹا چکی ٹیوب ویل وغیرہ پر لگا ہوتا ہے تو15/20 ہزار لیے بغیر میٹر تبدیل نہیں کرتے بلکہ کئی ثبوت موجود ہیں جن میں ٹائوٹوں کی بجائے سائل نے شارٹ کٹ کرکے رقم صاحب کے حوالہ کی تو صاحب نے ٹائوٹ کی ناراضگی کے ڈر سے سائل کو مہینہ چکر لگوائے اس کے علاوہ نیو کنکشن کیلئے صاحب کے دستخط کی بھی فیس ہوتی ہے جبکہ کسی بھی لائن مین نے دستخط کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھا کہ میٹر لگنا کہاں ہے کیونکہ صاحب کی مطلوبہ فیس جو500سے لاکھوں تک جاتی ہے دیکر ہر ناجائز میٹر کی فائل پر بھی دستخط کروا لیے جاتے ہیں۔
یہ پھر کبھی سہی اس ساری رام کہانی میں راقم نے ایک ایس ڈی او کے علاقہ کے ایک حصہ آپریشنل ٹیم پر محنت کی ہے مینجمنٹ ابھی باقی ہے پورے ملک میں سب ڈویژن شمار کریں اور کرپشن ،بجلی چوری کا حساب کریں تو روشن پاکستان میں بجلی بحران میں واپڈاملازمین کا مثالی کردار آپ کے سامنے ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ یہ صرف میں ہی جانتاہو بلکہ ڈویژنل آفیسر سے لیکر واپڈا کے صوبائی وزیر کے علم میں ہے۔
مگر اصلاح کیلئے فرشتے تو آئیں گے نہیں واپڈا نے ایک مذاق کیا ہے بلو ں پر لکھا ہوتا ہے say no to curreptionکرپشن کو نو کہہ دیں تو جب ایسا کرینگے تو لالٹین اور ہاتھ والا پنکھا لینا ہوگا بجلی کی سپلائی جاری رکھنے کیلئے تو یہ مشکل امر ہے کہ ہم ایسا کر سکیں لیکن اگر کرپشن ختم کرنی ہے تو اللہ کے قوانین پر عمل کرکے واقعی say no to tout and officers کہنا ہوگا۔