تحریر: صباء عیشل یوں لگتا ہے جیسے کسی نے دل مٹھی میں لیکر بھینچ لیا ہو, جیسے آسمان سر پر آگرا, جیسے بدن سے جان نکل گئی ہو, یہ کیسی روح فرسا خبر ہے؟ صبح فیس بک چیک کرتے ہی اتنی بری خبر پڑھنے کو ملی سانس رک گیا ,دل نے کہا کاش یہ افواہ ہو۔۔ لیکن اس خبر کو جٹھلانے کی خبر ڈھونڈنے کیلئے نیوز فیڈ چیک کرتے ہوئے یقین آگیا خبر سچی تھی۔ کاش یہ افواہ ہوتی, کاش اس خبر میں کوئی صداقت نا ہوتی۔ اتنی افواہیں روز پھیلتی ہیں کاش کاش کاش یہ بھی جھوٹ ہوتا۔
ہزاروں یتیموں کا باپ آج پاکستان کو یتیم کرگیا۔۔ جن کا پاکستان میں کوئی نا تھا ان کا ایدھی تھا۔۔آہ لاوارثوں کا وارث آج ہمیں لاوارث کرگیا۔۔ جس قوم کے حکمران چھینک آنے پر بھی ملک سے باہر جاکر علاج کرواتے تھے اس قوم کا مسیحا آج اپنے وطن کے ایک عام سے ہسپتال میں سپرد خاک ہوگیا۔ لیکن جاتے جاتے اپنے باقی اعضاء بھی قوم کو عطیہ کرگیا۔ یہ تحریر لکھتے وقت عجیب سی لہریں سرتاپیر تک گردش کررہی ہیں,دل لہو لہو ہے,یوں لگتا جیسے میرا بہت اپنا ,بہت ہی قریبی عزیز گذر گیا ہو۔ میں نے بہت بار سوچا ایدھی کون ہے؟ کیا میں ان سے کبھی ملی؟ کبھی فون پر ہی سہی کبھی بات ہوئی؟ ہر بار جواب نا میں آیا لیکن پھر میرے دل سے آواز آئی وہ قوم کا مسیحا تھا,وہ انسانیت کا علمبردار تھا,وہ ہمارا فخر تھا,ہمارا مان تھا۔ عبدالستارایدھی! نام لیتے وقت کتنی عقیدت اور احترام لہجے میں در آتا ہے۔ کتنا پیار لفظوں میں سمٹ آتا ہے۔وہ چمکتا دمکتا حسین ستارہ آج زندگی سے روٹھ گیا۔لیکن وہ ہم میں ہمیشہ زندہ رہے گا, ہمیشہ چمکتا رہے گا,وہ چراغ جو انہوں نے روشن کیا تھا ان شاء اللہ ہمیشہ جلتا رہے گا۔
Abdul Sattar Edhi
لوگ کہ رہے ہیں اللہ انہیں غریق رحمت کرے, انہیں جنت میں جگہ دے,انہیں اعلی مقام عطا فرمائے۔ اور میں سوچ رہی ہوں کیا انہیں کوئی دعا دینے کی ضرورت ہے؟ مجھے معلوم ہے, نہیں !بلکہ مجھے یقین ہے وہ نورانی چہرہ فرشتوں کے جھرمٹ میں اپنے رب کے حضور پیش ہوتے وقت مسکرا رہا ہوگا۔۔میں تصور میں دیکھ رہی ہوں عرش کے ملائک کھڑے ہو ہو کر اس عظیم انسان کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں,ہار پہنائے جا رہے ہیں۔ میرے آقا ? آج ہمارے ایدھی کو گلے لگا کر کہیں گے ایدھی تونے میرے امتی ہونے کا حق ادا کردیا۔۔ہاں آج عبدالستار ایدھی کو سند اعزاز پیش کی جانی ہے۔ جنت کے دروازے پر ان کا عالیشان استقبال ہوگا اور ہمارے آقا ? انہیں جنت میں لے جانے کو خود تشریف لائیں گے۔ آج فرشتے امت محمدی کے ایک عظیم امتی پر رشک کررہے ہوں گے۔تو میں کیا لکھوں میں کیا دعا دوں اس نباضِ انسانیت کو جو ہر پاکستانی کے دل میں دھڑکن بن کر دھڑکتا ہے۔
میرا بہت دل کر رہا ہے میں ان کا آخری دیدار کرسکتی ان کے ماتھے پر بوسہ دیتی ایک بار اس سادگی اور نورانیت بھرے چہرے کو آنکھوں سے دیکھتی اور خود کو یقین دلاتی کہ یہ ہے وہ شخص جو خود پیوند لگا کر پہنتا تھا لیکن لوگوں کو پہناتا تھا, بھوکوں کو کھانا کھلاتا, بیٹیوں کو باپ بن کر رخصت کرتا, ان لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے نہلاتا جن کے اپنے ان سے نفرت کرتے تھے۔ جلے ہوئے بدبودار لوتھڑوں کے بیچ ناک پر کپڑا رکھے بنا وہ گوشت کے ٹکڑے چنتا تھا ان کو اپنے ہاتھوں سے دھوتا,جن ماں باپ کو اولاد ٹھکرادیتی تھی ایدھی ان کا بیٹا تھا۔ میری دلی خواہش تھی میں زندگی میں ایک بار ان سے مل سکتی,ان کو سراہ سکتی ان کو بتا سکتی کہ میں انکے لئے کیا سوچتی ہوں لیکن ایسا نا ہوسکا آج تو ان سے ملنے کی ہر آرزو دم توڑ گئی۔ میری خواہش میری حسرت بن کر آنسوؤں کے راستے بہہ رہی ہے۔ کن الفاظ میں اس ہستی کا ذکر کریں میرے پاس تو ان کے شایان شان ,ان کے قابل ایک بھی لفظ نہیں۔
Abdul Sattar Edhi
افسوس ایدھی صاحب ہم آپ کی قدر نا کرسکے, ہم نے پاکستان کو سنبھالنے کا مشن آپ کو دے دیا اور بھول گئے۔ آج ہمارا ناقابل تلافی نقصان ہوگیا, کروڑوں دل رنجیدہ اور آنکھیں نم ہیں۔ آج ہم سب پاکستانی تڑپ رہے ہیں,دھاڑیں مار مار کر رورہے ہیں , بین کررہے ہیں کہاں سے بھرپائی کریں گے اس نقصان کی۔؟ آج وہ روشن ستارہ بجھ گیا جس کی روشنی سے لاکھوں لوگوں کے دل روشن تھے۔ آج پاکستان کا چاند خاموش ہوگیا۔ خاموشی ,اندھیرا,دکھ ,کرب جانے کن کن احساسات سے آج ہم سب بھر گئے ہیں۔ دل بوجھل ہیں اور روح زخمی۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہماری روح ہم سے جدا ہوگئی ہے۔عظیم قومی نقصان,دکھ ہے,دکھ ہے,شدید دکھ ہے۔ اللہ تعالی اتنے بڑے نقصان پر ہمیں صبر عطا فرمائے۔ آمین