برطانیہ (جیوڈیسک) برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے ہیں اور ان کی جگہ کنزرویٹو پارٹی کی سربراہ تھریسا مے نئی وزیراعظم بن گئی ہیں۔
اٹھاون سالہ تھریسا مے نے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد لندن میں 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے برطانیہ عظمیٰ کو بریگزٹ ریفرینڈم کے بعد درپیش چیلنجز سے نمٹنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ”یورپی یونین سے انخلاء کے بعد ہم دنیا میں اپنے طور پر ایک مثبت اور دلیرانہ کردار ادا کریں گے”۔
قبل ازیں تھریسا مے نے بکنگھم پیلس میں ملکہ الزبتھ دوم سے ملاقات کی اور انھوں نے برطانیہ کے غیر تحریری آئین کے تحت دارالعوام میں اکثریتی پارٹی کی لیڈر ہونے کے ناتے انھیں حکومت بنانے کی دعوت دی۔وہ کیمرون کابینہ میں مسلسل چھے سال تک وزیرداخلہ رہی ہیں اور مارگریٹ تھیچر کے بعد برطانیہ کی دوسری خاتون وزیراعظم ہیں۔
اس سے پہلے ملکہ الزبتھ سے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ملاقات کی اور انھیں رسمی طور پر اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔پھر وہ اقتدار قدامت پرست پارٹی کی نئی سربراہ تھریسا مے کے حوالے کرکے وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کو خالی کر کے چلے گئے۔
ڈیوڈ کیمرون چھے سال تک برطانیہ کے وزیراعظم رہے ہیں۔انھوں نے 23 جون کو برطانیہ کے یورپی یونین کا بدستور رکن رہنے یا اس سے اخراج کا فیصلہ کرنے کے لیے منعقدہ ریفرینڈم کے ایک روز بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا۔برطانوی ووٹروں کی اکثریت نے ملک کے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ دیا تھا جبکہ ڈیوڈ کیمرون نے تنظیم میں شامل رہنے کے لیے مہم چلائی تھی۔تھریسا مے نے بھی وزیراعظم کے اس موقف کی حمایت کی تھی۔
انچاس سالہ ڈیوڈ کیمرون نے برطانوی روایت کے مطابق دارالعوام میں اپنی اختتامی تقریر کی اورارکان کے سوالوں کے جواب دیے۔اس موقع پر حکمراں جماعت کنزرویٹو کے ارکان نے کھڑے ہوکر انھیں خراج تحسین پیش کیا اور رخصت کیا۔حزب اختلاف کے بعض ارکان نے بھی انھیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
برطانوی اخبارات نے ان کی رخصتی پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ڈیلی ٹیلی گراف نے ان کی تحسین کی ہے اور لکھا ہے کہ انھوں نے 2008ء کے بعد ملک کو معاشی بحران سے نکالا تھا اور ملک کے مستقبل سے متعلق اہم فیصلے کے لیے ریفرینڈم کا انعقاد کیا۔ موقر روزنامے گارجین نے انھیں ”وعدے توڑنے والا وزیراعظم” قرار دیا ہے۔
کثیر الاشاعت برطانوی ٹیبلائیڈ اخبار دا سن نے لکھا ہے کہ ڈیوڈ کیمرون نے لندن میں اولمپکس کے انعقاد سے جو کچھ حاصل کیا تھا،وہ انھوں نے بریگزٹ ریفرینڈم میں کھو دیا ہے۔