لندن (جیوڈیسک) برطانیہ میں ایک قانون کے ذریعے جبری شادیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ پیر سے نافذ العمل ہونے والے قانون کے تحت خلاف ورزی کرنے والوں کو سات سال تک قید کی سزا دی جاسکے گی۔
یہ قانون ناصرف برطانیہ میں نافذ العمل ہو گا بلکہ اس کے تحت دنیا کے کسی بھی حصے میں برطانوی شہریوں کی جبری شادی بھی جرم قرار دے دیا گیا ہے، کیونکہ اکثر نوجوانوں کو شادیوں کے لیے آبائی ملکوں بالخصوص پاکستان ، انڈیا اور بنگلہ دیش لے جایا جاتا ہے۔ برطانوی حکومت کے جبری شادیوں کے حوالے سے یونٹ (ایف ایم یو) میں رپورٹ ہونے والے تقریباً دو تہائی کیسز جنوبی ایشیائی کمیونٹی سے متعلق ہوتے ہیں۔
رضاکاروں نے نئے قوانین کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے انہیں ‘آگے کی جانب ایک بڑا قدم’ قرار دیا جبکہ حکومت نے امید ظاہر کی ہے کہ مستقبل میں ممکنہ ہدف بننے والوں کو اس قانون کے ذریعےتحفظ مل سکے گا۔
جبری شادیوں کی وجہ سے برطانیہ میں پیدا ہونے والے ہزاروں نامعلوم نوجوانوں کی زندگیاں بری طرح متاثر ہوئی تھیں اور خفیہ طور پر ہونے والی یہ شادیاں گزشتہ ایک دہائی کے دوران تیزی سے منظر عام پر آنے لگی تھیں سیکریٹری داخلہ تھیریسا مے کے مطابق، جبری شادیاں ہر متاثرہ فرد کے لیے ایک سانحہ ہے اور ایسے بہت سے کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
‘میں بڑے فخر سے کہوں گی کہ اس نقصاندہ پریکٹس سے نمٹنے میں برطانیہ پہلے ہی باقی دنیا سے کہیں آگے ہے کیونکہ حکومت کا ایف ایم یو برطانیہ اور اوورسیز اس خوفناک پریکٹس سے نمٹنے کے لیے بہت محنت کر رہا تھا’۔
‘آج اس عمل کو جرم ٹھرگا کر حکومت نے مزید ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ متاثرین کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہو سکے اور انہیں اپنا جیون ساتھی کے انتخاب میں تحفظ ، آزادی اور اعتماد ہو’۔ خیال رہے کہ ایف ایم یو نے گزشتہ سال ایسے 1300 کیسز نمٹائے تھے، جن میں سے 18 فیصد متاثرین مرد تھے۔
واضح رہے کہ 74 مختلف ملکوں کےان کیسز میں سے 43 فیصد پاکستان، 11 انڈیا اور 10 فیصد بنگلہ دیش سے تعلق رکھتے تھے۔ دوسرے ملکوں میں افغانستان، صومالیہ، عراق، نائجیر یا، سعودی عرب، یمن ، ایران اور تنزانیہ شامل ہیں۔