لندن (جیوڈیسک) برطانوی حکومت نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد سے سختی سے نمٹنے کے لیے نئی قانون سازی کا آغاز کر دیا ہے جس کے تحت انسانی اسمگلروں، لوگوں کوغلام بنا کر رکھنے اور انھیں جنسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں کو عمر قید کی سزا سنائی جا سکے گی۔
اس سلسلے میں وزیر داخلہ تھریسامے نے’ ماڈرن سلیوری بل’ کا مسودہ قانون شائع کر دیا ہے اور توقع ہے کہ 2014 میں اسے قانونی شکل حاصل ہو جائے گی۔ گزشتہ روز شائع ہونے والی ایک سرکاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں انسانی اسمگلنگ کے کیسوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے جس کی روک تھام کے لیے سخت قانون بنا یا جا رہا ہے۔
نئے قانون میں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ جنسی مقاصد یا غلام بنانے کی غرض سے اسمگلنگ کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں اور عمر قید کی سزا سنائی جا سکے جبکہ پہلے سے سزا یافتہ مجرموں کی سزائوں میں بھی تبدیلی لائی جا سکے۔ ‘انٹر ڈپارٹمنٹل منسٹر گروپ ‘ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس برطانیہ میں انسانی اسمگلنگ کے کیسوں میں 25 فیصد اضافہ ہوا اور تقریبا 1,186 افراد حکام کے حوالے کئے گئے۔
بتایا گیا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے البانیہ سے سب سے بڑی تعداد میں لوگوں کو غلام بنا کر برطانیہ لایا گیا۔ وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ برطانیہ لائے جانے والے متاثرین کی ایک بڑی تعداد کا تعلق نائیجیریا، ویت نام، البانیہ، رومانیہ اور چین سے ہے۔ حکام کے مطابق اس مسئلے کو اب تک برطانیہ میں ایک بین الاقوامی مسئلہ ہی سمجھا جاتا رہا ہے لیکن انسانی اسمگلنگ کے کاروبار میں بہت سے برطانوی شہری بھی ملوث ہیں جو دنیا بھرسے لائے جانے والے غلاموں کو لیبر گروپوں میں استعمال کرتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق نئے قانون کا اطلاق پہلے سے سزا یافتہ مجرموں پر بھی ہو سکے گا۔ اسی طرح پاکستانی نژاد برطانوی معمرشہری الیاس آشر جنھیں بدھ کے روز مانچسٹر کرائون کورٹ نے ایک گونگی بہری نابالغ لڑکی کو اسمگل کرنے اور جنسی غلام بنانے کے الزام میں مجرم قرار دیا ہے انہیں بھی نئے قانون بننے کے بعد مزید سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ برطانوی میڈیا رپورٹس کے مطابق غلامی کی جدید اشکال کے حوالے سے منظر عام پر آنے والے حالیہ واقعے میں ایک پاکستانی خاندان کے معمر افراد ملوث پائے گئے ہیں۔
چوراسی سالہ الیاس آشر، ان کی اڑسٹھ سالہ بیوی طلعت اور چھیالیس سالہ بیٹی فائزہ نے ایک گونگی بہری دس سال کی بچی کو 2000 میں پاکستان سے اسمگل کیا تھا اور سفر کے وقت پاسپورٹ پر بچی کی عمر بیس برس لکھوائی گئی تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکی کی بازیابی حادثاتی طور پر اس وقت ہوئی جب ٹریڈنگ سٹینڈرڈز کے ادارے نے 2009 میں غیر قانونی سرگرمیوں کے حوالے سے الیاس آشر کے گھر کی تلاشی لی تھی تو انھیں گھر کے بوسیدہ اور تاریک تہہ خانے میں ایک بیس برس کی گونگی بہری لڑکی ملی تھی جس سے گھر کا سارا کام کاج کروایا جاتا تھا۔ اسے مارا پیٹا جاتا تھا اور زبردستی دوست احباب کے گھروں پر بھی کام کروانے کے لیے بھیجا جاتا تھا۔