لندن (جیوڈیسک) اس پٹیشن پر اب پارلیمان کے اراکین بحث کریں گے کیونکہ برطانوی پارلیمانی روایات کے مطابق اگر کسی پٹیشن پر ایک لاکھ سے زیادہ افراد دستخط کریں تو پارلیمنٹ میں اس پر غور کیا جاتا ہے ۔ برطانیہ میں جمعرات کو ہونے والے تاریخی ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق 52 فیصد عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی ہونے کے حق میں جبکہ 48 فیصد نے یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا ہے ۔ واضح رہے کہ برطانوی عوام کی جانب سے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں فیصلہ سامنے آنے کے بعد برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
جمعہ کو لندن میں 10 ڈاؤئنگ سٹریٹ پر ایک پریس کانفرنس میں ڈیوڈ کیمرون نے کہا تھا کہ وہ اکتوبر میں اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں گے۔ ویلیم ہیلی نامی شخص کی جانب سے شروع کی گئی اس پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ ہم دستخط کنندہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس اصول کا نفاذ کیا جائے کہ 75 فیصد شرح ووٹ کی بنیاد پر اگر ساتھ رہنے یا الگ ہونے کے ووٹ 60 فیصد سے کم ہیں تو دوسرا ریفرنڈم کروایا جائے۔
جمعرات کو ہونے والے ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے والوں کی شرح 72.2 فیصد رہی جو گذشتہ برس کے عام انتخابات کی 66.1 فیصد سے ذیادہ ہے لیکن مسٹر ہیلی کی تجویز کے مطابق ایسے ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کی شرح کم از کم 75 فیصد ہونی چاہیے۔ اگرچہ برطانیہ میں ہونے والے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے والوں کی شرح کبھی 75 فیصد سے زیادہ نہیں رہی لیکن 2014 میں سکاٹ لینڈ کی علیحدگی کے حوالے سے ہونے والے ریفرنڈم میں ووٹر ٹرن آؤٹ 84.6 فیصد تھا۔
برطانوی ایوانِ زیریں کے ترجمان کے مطابق اس آن لائن پٹیشن پر دستخط کرنے والوں کا تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ایسی پٹیشنز کے لیے بنائی گئی ویب سائٹ ایک موقعے پر عارضی طور پر بند ہو گئی تھی۔ یاد رہے کہ اس نتیجے کی صورت میں برطانیہ یورپی یونین کو الوداع کہنے والا پہلا ملک بن جائے گا تاہم علیحدگی کے حق میں ووٹ کا مطلب برطانیہ کا یورپی یونین سے فوری اخراج نہیں ہے۔ اس عمل میں کم از کم دو برس کا عرصہ لگ سکتا ہے۔