برمنگھم (جیوڈیسک) برمنگھم فسادات میں مارے گئے پاکستانی نژاد نوجوان کے والد نے کہا ہے کہ انکا برطانیہ کے نظام انصاف سے اعتماد اٹھ گیاہے۔انہوں نے یہ بات واقعہ کی تحقیقات میں رکاوٹ سے متعلق آج جاری پولیس رپورٹ میں کسی بھی اہلکار کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی سفارش پر کی ہے۔ سن دوہزار گیارہ میں لندن فسادات کی آگ برمنگھم تک پھیل گئی تھی۔ سیاہ فام شخص کی پولیس کے ہاتھوں موت کے بعد برمنگھم میں لوٹ مارکے بھی واقعات ہوئے تھے اوراس دوران گھروں اورکاروباری مراکزکاتحفظ کرنے والے ہارون جہاں اور اسکے 2 دوست شہزاد علی اور عبدالمصورکوکارسے کچل کرہلاک کر دیا گیا تھا۔
ہارون کے والد طارق جہاں نے واقعہ پرمشتعل افرادکوپرامن رہنے کی اپیل کرکے ہیروکی حیثیت حاصل کرلی تھی تاہم اب پولیس واچ ڈاگ کی رپورٹ پرردعمل میں مقتول ہارون کے والد طارق جہاں نے کہا کہ انکا برطانیہ کے نظام انصاف سے اعتماد اٹھ گیاہے۔قتل میں مبینہ طورپرملوث 8 ملزم بری کردیے گئے تھے جبکہ پولیس تفتیش میں مسائل کے سبب مقدمے کی کارروائی تقریباً روکناپڑی تھی۔ اس بات کاانکشاف ہوا تھا کہ ویسٹ مڈلینڈز پولیس یہ ظاہر کرنے میں ناکام ہو گئی تھی کہ انہوں نے مناسب اتھارٹی کے بغیر ہی عینی شاہدین کوپراسیکیوشن سے امیونٹی کی پیش کش کی تھی۔ عدالتی کارروائی کے دوران مبینہ طورپر جھوٹ بولنے پر جج نے چیف انسپکٹرانتھونی ٹیگ Tagg کی سرزنش بھی کی تھی۔
انڈی پینڈینٹ پولیس کمپلینٹس کمیشن نے ٹیگ اور انسپکٹرخالد کیانی کے اقدامات سے متعلق تفتیش کی تھی جس کی رپورٹ بدھ کی صبح جاری کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ٹیگ جواب دہ نہیں تاہم کیانی نے عینی شاہدین کو امیونٹی کی پیشکش کرکے غلط کام کیا تھااور ریٹائرنہ ہوتے توکیانی کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کی جا سکتی تھی۔ طارق جہاں نے کہا کہ بیٹے کی میت پڑی تھی اور پولیس نے انہیں فسادات روکنے کے لیے پلیٹ فارم پر چڑھا دیا اور عدم تشددکے فلسفے کاپرچارکرنے کیلئے استعمال کر ڈالا۔ طارق جہاں نے کہاکہ نظام انصاف پراعتماد کرناانکی سب سے بڑی غلطی تھی۔