برطانیہ کے پردیسی

British Pakistani

British Pakistani

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
اس نے ایک دم پائوں بریک پر رکھا اور ٹیکسی کو سڑک کے کنارے روک دیا میں اُس کے اِس ردعمل کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھا ۔ ہم لندن سے آکسفورڈ ہائی وے پر برق رفتاری سے جا رہے تھے راستے کے سحر انگیز مناظر ہریالی نے مجھ پر وجد کی سی کیفیت طاری کی ہوئی تھی میں راستے کے مناظر کو انجوائے کر رہا تھا ۔ اِسی دوران سرسری طور پر میں نے ڈرائیور سے یہ پوچھ لیا کہ تم کب سے پاکستان نہیں گئے اور تمہارے بیوی بچوں کا کیا حال ہے اُن کی یاد آتی ہوگی میں نے تو عام اور روٹین کا سوال کیا تھا لیکن ڈرائیور کے لیے یہ سوال بم کی طرح تھا ۔ جو اُس نے گاڑی کو ایک دم روک دیا تھا ۔ دو دن پہلے میری اِس پاکستانی سے ملاقات کسی کے گھر کھا نے پر ہوئی تو اِس نے کہا میں آپ سے تفصیلاً ملنا چاہتا ہوں میں یہاں CAB یعنی ٹیکسی چلا تا ہوں آپ نے لندن میں یا کسی دوسرے شہر جانا ہو تو آپ مجھے خدمت کا موقع دیں آج میں نے آکسفورڈ جانا تھا لہذا میں نے اِس کو بلا لیا تھا اور اِس کے ساتھ جا رہا تھا دوران سفر اس نے اچانک بریک لگا دی وہ میری طرف دیکھ رہا تھا۔

اُس کے چہرے پر بے بسی بے کسی ، لاچارگی ، درماندگی ، اور شدید اندرونی کرب کے واضح اثرات نظر آرہے تھے جو ہر گزرے لمحے کے ساتھ گہرے ہوتے جا رہے تھے ۔ اُس کی آنکھوں میں ہزاروں خزائوں کے درد نظر آرہے تھے ۔ اُس کی اداس بے قرار آنکھوں اور پلکوں پر آنسو لرز رہے تھے پھر شدید اندرونی کرب کی وجہ سے اُس کی نسوں کا خون آنسوئوں میں ڈھل گیا اُس کے جسم میں چھپی سسکیاں سمٹ کر اُس کے خشک ہونٹوں پر آگئیں ۔ آئیں ہچکیاں اور چیخیں اُس کے حلق سے آتش فشاں کی طرح پھٹنے لگیں پھر درد کی شدت سے اُس کی آنکھیں بر سنے لگیں اور آنکھوں سے آنسوئوں کی دو فرات بہنے لگے ۔ آنسو اُس کے گالوں سے آبشار کی طرح بہہ رہے تھے اور غم کی شدت سے اُس کا جسم لر ز رہا تھا ۔ میں حیران پریشان ساکت اُس کو شفقت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ میں اُس کے اس رد ِعمل اور روئیے کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھا ۔ وہ رو رہا تھا اور میں اُسے دیکھ رہا تھا میں اُس کو خو د موقع دے رہا تھا جب اُس نے جی بھر کر رو لیا تو اُس نے لرزتے ہو ئے اپنی داستان الم سنانی شروع کی۔

سر آج سے کئی سال پہلے میں پاکستان میں بھی ٹیکسی چلا تا تھا باقی پاکستانیوں کی طرح میں بھی یورپ اور برطانیہ کے سہانے خواب دیکھاکر تاکہ کسی نہ کسی طرح برطانیہ چلا جائوں تو غربت ختم ہو جائے گی پھر میرے پاس بنگلہ گاڑی اور ڈھیر سا رے رو پے ہونگے لہذا اِسی لا لچ میں اپنی گاڑی اور بیوی کا زیور بیچ کر میں ایجنٹوں کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک ذلیل و رسوا بھو کے ننگے راشد سے ارشد پھر رشید اور پھر بشیر بن کر میں کسی نہ کسی طرح پا سپورٹ بدل کر تصویریں لگا لگا کر کبھی راشد کبھی ارشد کبھی رشید اور پھر بشیر بن کر میں یہاں آگیا اب میرے کئی نام ہیں پاکستان میں نا م اور ہے یہاں کو ئی اور نا م ہے۔

Pakistan

Pakistan

پاکستان کو جب میں نے چھوڑا تو اُس وقت میری بیوی نوجوان تھی دو بیٹے جوانی کی دہلیز پر دستک دے رہے تھے ۔ جبکہ بیٹی سکو ل جاتی تھی۔ کیونکہ میں برطانیہ میں غیر قانونی تھا ٹیکسی چلا نہیں سکتا تھا اِس لیے پیسے کمانے اور وکیلوں کو پیسے دینے کے لیے میں نے گوروں کے ٹوائلٹ صاف کیے کتوں کو نہلایا مزدوری کی ہوٹلوں میں برتن دھوئے بیس بیس گھنٹے لگا تا ر مزدوری کی مختلف کام کئیے پاکستان سے فون اور ہنڈی کا رشتہ رہا دن رات لگاتار مزدوری کرتا بیس بیس بندوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں فرش پر سوتا ایک ہی جینز میں تین سال تک گزارا کیا ۔ گدھوں کی طرح نان سٹاپ کام کیا تاکہ گھر کی غربت دور کر سکوں کیونکہ یہاں پر غیر قانونی رہنے والوں کو علاج کی سہولت میسر نہیں اِس لیے دن را ت مزدوری سے بیماری جکڑ لیتی یا دوران مزدوری اگر چوٹ یا زخم لگ جاتا تو اُس چوٹ زخم یا بیماری کی حالت میں ہی کئی کئی دن کام کیا آرام نیند کا خیال تو درکار بیماری کا بھی خیال نہ کیا۔

میری دن رات کی مزدوری سے پاکستان میں میرے گھر میں خوشحالی آنے لگی غربت کے سائے چھٹنے لگے میں برطانیہ جیسے جنت نظیر ملک میں دوزخ جیسی زندگی گزار رہا تھا لیکن یہاں سے ہزاروں میل دور میرے گا ئوں میں میرا نیا گھر بن گیا ماں باپ نے حج کر لیا ۔ بیوی نے سونے کے بہت سارے زیوارت نئے بنوا لیئے آنے جانے کے لیے نئی مہنگی کار خرید لی ۔ دولت کی دیوی جیسے ہی میرے گھر پر مہربان ہوئی تو اُس کے منفی اثرات بھی شروع ہوگئے دونوں بیٹوں نے پڑھائی چھوڑ دی اور عیاش لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا برُے لوگوں کی برُی صحبت، آخر برُی صحبت نے رنگ دکھا نا شروع کر دیا ایک بیٹے نے سگریٹ نوشی کی ابتدا ء کی جو ہیروئن پر جا کر رکی ماں نے پیسوں کے زور پر بہت علا ج کرایا اُس کو کئی بار نشہ کلینک پر جمع کرایا لیکن جیسے ہی وہ علاج کراکے واپس آتا پھر سارے نشئی اُس کو گھیر لیتے اور وہ پھر نشے کی لت میں مبتلا ہو جاتا اِسی آنکھ مچولی میں یہ بیٹا زندگی کی بازی ہار گیا دوسرا بیٹا بھی روپے کے غلط استعمال کی وجہ سے جرائم پیشہ لو گوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع ہو گیا۔

جرائم پیشہ لوگوں نے اُس سے غلط کا م لینے شروع کر دیئے یہ بیٹا چھوٹے چھوٹے جر موں سے بڑے جرموں کی طرف بڑھتا چلا گیا چوری ڈکیتی سے کام شروع ہوا اور پھر کرائے کا قاتل اور قبضہ مافیا کے ہاتھ چڑھ گیا اِس دورا ن قبضہ حاصل کرنے کے چکر میں پو لیس مقابلہ ہوا اور یہ بھی زندگی کی بازی ہار گیا ۔ میرے بوڑھے ماں باپ عمر کے آخری حصے میں بیٹوں کا الم ناک انجام بر داشت نہ کر سکے بڑھا پے اور غم نے اُن کی کمر اور جھکا دی ۔ میں نے پچھلے پندرہ سالوں میں ہزاروں پونڈ کمائے پا کستان میں لوگ مجھے خوش نصیب سمجھتے ہیں جبکہ میرے جیسا بد نصیب کوئی نہ ہوگا جو شخص آخر وقت اپنی ماں کی خدمت نہ کر سکے باپ کے جنازے کو کندھا نہ دے سکے بیٹوں کو آوارگی اور جرائم سے نہ بچا سکے اور وہ موت کی وادی میں اُترتے گئے اور بیٹی اُس کے غم نے تو میری زندگی اُدھیڑ کر رکھ دی بیٹے اپنی عیاشیوں میں پڑے ہو ئے تھے ماں باپ بو ڑھے ہو چکے تھے۔

Pakistani Women Shopping

Pakistani Women Shopping

بیوی نئے کپڑوں اور زیورات کے نشے میں دھت ہو چکی تھی بیٹی کو کوئی پوچھنے یا سمجھا نے والا نہ تھا اُس نے زبر دستی بڑی عمر کے ایسے شخص سے شادی کر لی جو پہلے ہی شا دی شدہ تھا یہ آخری زخم تھا جس نے میری زندگی کو جہنم میں بدل دیا میں یہاں غیر قانونی سے قانونی کی جنگ لڑتا رہا اور اُدھر میرا گھر ویرانے اور بربادی کی زندہ تصویر بنتا گیا رہ گئی بیگم تو روپے بیسے کی ریل پیل میں وہ پہلے تو مو ٹاپے کا شکار ہوئی پھر بلڈ پریشر اور شوگر نے اُس کو چاٹنا شروع کر دیا بیٹوں کی موت اور بیٹی کی رسوائی نے بیوی اور مجھے ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے میں جو ترقی اور دولت کے سہانے خواب لے کر یہاں آیا تھا آج بر بادی اور ویرانی کا چلتا پھرتا اشتہار ہوں۔ میں نے کئی بار پاکستان جانے کی کوشش اور ارادہ کیا لیکن پھر حوصلہ نہیں ہوا کہ کس طرح گائوں والوں اور دوستوں کا سامنا کر وں گا یہاں پر غیر قانونی سے قانونی کی جنگ اور گردش لیل و نہار نے میرا سب کچھ ہی مُجھ سے چھین لیا۔

اب میں یہاں جو بھی کماتا ہوں ویک اینڈ پر جوئے شراب اور عیاشی پر لٹا دیتا ہوں سر آپ پاکستان جا کر لوگوں کو یہاں آنے کی قیمت ضرور بتائیے گا۔ یہاں پر ہزاروں ایسے پاکستانی موجود ہیں جن کی کہانیاں میری کہانی سے ملتی جلتی ہیں اِن پاکستانیوں نے اپنے گھر والوں کو کوٹھیاں کاریں اور عیاشی والی زندگی دینے کے لیے یہاں بہت بڑی قیمت ادا کی ہے یہاں پتہ ہی نہیں چلتا کب جوانی بڑھاپے کے ویرانے میں اُتر گئی پاکستان میں اولاد جوان اور ماں باپ قبروں میں اُتر گئے ۔ اُس وقت تک انسان بہت کچھ کھو چکا ہوتا ہے۔

میں راشد، رشید بشیر کی دکھی داستان سن کر پاکستان آگیا لیکن جب بھی پتو کی پھول نگر گجرات یا کوہ مری کا کوئی نوجوان میرے پاس آکر دیوانگی سے باہر جانے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے تو مجھے شدت سے راشد رشید اور اُس جیسے ہزاروں پاکستانی یاد آجاتے ہیں جو برطانیہ یورپ اور امریکہ میں اپنوں کی جدائی کے داغ سینوں پر سجائے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

Prof Abdullah Bhatti

Prof Abdullah Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956

Street - People - Men

Street – People – Men