لندن (اصل میڈیا ڈیسک) مغربی ممالک میں مقیم پاکستانی، بھارتی اور بنگلہ دیشی خاندان اپنی بچیوں کو زبردستی اپنے آبائی ممالک میں شادیاں کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اب اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے برطانوی ہوائی اڈوں پر خصوصی اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔
رواں برس موسم گرما کی چھٹیوں کے آغاز سے برطانوی اداروں نے جبری شادیوں کے خلاف ایک مہم کا آغاز کر رکھا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ملک بھر کے مختلف ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر خصوصی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔
پولیس اور دیگر محکموں کی مشترکہ ٹیمیں خاص طور پر ان خاندانوں پر نظر رکھتی ہیں، جن کی بچیاں جوان ہیں اور جن کا آبائی طور پر تعلق ایشیائی ممالک سے ہوتا ہے۔ یہ خصوصی ٹیمیں برطانوی قوانین کی مدد سے اس بات کو روکنا چاہتی ہیں کہ کسی لڑکی کی شادی اس کی مرضی کے بغیر اور زبردستی نہ کی جائے۔
لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ پر ایسی ہی ایک خصوصی ٹیم نے بھارتی شہر بنگلور سے آنے والے ایک خاندان کو روک رکھا ہے۔ اس خاندان کے ساتھ موجود تیرہ سالہ لڑکی کے بازو پر نیل پڑے ہوئے ہیں اور وہ کچھ خوفزدہ بھی نظر آ رہی ہے۔ انہی آثار و شواہد کی بنیاد پر اس خاندان کو روک لیا گیا۔
ہر ایک سے الگ الگ کی جانے والی تفتیش کے مطابق اس خاندان کا کہنا ہے کہ وہ کسی رشتے دار کے انتقال کی وجہ سے بھارت گئے تھے اور لڑکی کو چوٹیں راستے میں پیش آنے والے ایک حادثے کی وجہ سے آئیں۔ اسی دوران برطانوی حکام کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس لڑکی کے لیے کیرالہ میں ایک رشتہ ڈھونڈ لیا گیا ہے اور وہ لڑکا بھی جلد ہی برطانیہ آ سکتا ہے۔
ان برٹش اہلکاروں نے تیرہ سالہ لڑکی سے بات چیت کرتے ہوئے اسے واضح طور پر بتایا کہ برطانیہ میں جبری شادی قانوناﹰ ایک جرم ہے اور وہ کسی بھی وقت شادی سے انکار کر دینے کا حق رکھتی ہے۔ برطانیہ نے اپنے ہاں سن دو ہزار چودہ سے جبری شادی کو جرم قرار دے رکھا ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو سات سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
برطانیہ میں سن دو ہزار اٹھارہ میں سترہ سو سے زائد جبری شادیوں کے واقعات سامنے آئے تھے۔ سن دو ہزار سترہ کے مقابلے میں یہ سالانہ تعداد سینتالیس فیصد زیادہ تھی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ بنتی ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ایسے زیادہ تر واقعات ایسے برطانوی شہریوں کے حوالے سے سامنے آتے ہیں، جن کا تعلق پاکستان، بھارت یا بنگلہ دیش سے ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں خصوصی ٹیمیں ایسے مسافروں پر نظر رکھتی ہیں، جو جنوبی ایشیا یا پھر مشرق وسطیٰ سے واپس آ رہے ہوتے ہیں۔ ہیتھرو ایئر پورٹ کی خصوصی ٹیم میں شامل ٹروڈی گیٹنز کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”یہ مسئلہ صرف جنوبی ایشیائی ممالک کا نہیں ہے بلکہ کئی دیگر ممالک کی ثقافتوں کا بھی ہے۔‘‘
برطانیہ میں ایسے کیس بھی سامنے آ چکے ہیں، جن میں ایک دو سالہ لڑکی تک کا رشتہ بھی طے کر دیا گیا تھا اور ایک کیس میں تو الزائمر کے ایک اسّی سالہ مریض کی شادی اس کی دیکھ بھال کرنے والی خاتون سے کر دی گئی تاکہ اسے اس شخص کی جائیداد مل سکے۔
اعداد و شمار کے مطابق ایک تہائی متاثرہ لڑکیوں کی عمریں اٹھارہ برس سے بھی کم ہوتی ہیں جبکہ اس مسئلے کا سب سے زیادہ سامنا بھی لڑکیوں یا خواتین کو ہی کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلی سزا ویسٹ مڈلینڈز میں سن دو ہزار اٹھارہ میں ایک پاکستانی نژاد برطانوی خاتون کو سنائی گئی تھی اور اس خاتون کو جیل جانا پڑا تھا۔ اس خاتون کی تیرہ سالہ بیٹی کو اس کے منگیتر نے پاکستان میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔
اسی ٹیم میں شامل ایک خاتون اہلکار پرم سندھو کا کہنا تھا، ”ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ پورے خاندان یا پھر والدین کو مجرم بنا کر پیش کیا جائے۔ ہمارا مقصد صرف اور صرف نوجوانوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔‘‘ ٹروڈی گیٹنز بتاتی ہیں کہ انہیں متعدد مرتبہ ایسی لڑکیاں بھی ملیں، جنہوں نے اپنی جبری شادیوں کے واقعات کو ‘زندہ درگور کر دیے جانے‘ کے مترادف قرار دیا۔