لندن (اصل میڈیا ڈیسک) برطانوی کنزرویٹو پارٹی کے رکن پارلیمان ایسیکس کے علاقے کے ایک چرچ میں اپنے حلقے کے لوگوں سے مل رہے تھے کہ ان پر چاقو سے حملہ کیا گیا۔ پولیس نے ایک شخص کو گرفتار کر لیا اور حملے کو ممکنہ ’دہشت گردانہ واقعہ‘ قرار دیا ہے۔
برٹش پارلیمنٹ کے رکن سر ڈیوڈ امیس پر 15 اکتوبر جمعے کے روز کیے گئے اس حملے میں ایک شخص نے ان پر چاقو سے کئی وار کیے۔ وہ جس وقت ساحلی قصبے ’لائی آن سی‘ کے ایک چرچ میں اپنے حلقے کے لوگوں سے ملاقات کر رہے تھے، یہ حملہ اسی وقت کیا گیا۔ مشتبہ حملہ آور بھی اس اجتماع میں شریک تھا۔
پولیس نے بتایا کہ حملے کے فوری بعد انہیں ہنگامی طبی امداد دی گئی لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ برٹش میٹروپولیٹن پولیس نے ایک بیان میں اس حملے کو ’دہشت گردی کا واقعہ‘ قرار دیا ہے۔
پولیس نے 16 اکتوبر ہفتے کی صبح جاری کردہ ایک بیان میں کہا، ’’ابتدائی تفتیش سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ حملہ ممکنہ طور پر مسلم انتہا پسندانہ تحریک سے جڑا ہوا حملہ ہے۔‘‘ پولیس نے کہا کہ چونکہ اس خونریز واقعے کو دہشت گردانہ کارروائی قرار دیا جا چکا ہے، اس لیے اب اس کی تفتیش انسداد دہشت گردی کے ذمے دار حکام کے حوالے کر دی گئی ہے۔
جمعے کے روز بیل فیئرز میتھوڈسٹ چرچ میں ڈیوڈ امیس جب اپنے حلقے کے ووٹروں سے ملاقات کر رہے تھے، تو مبینہ حملہ آور نے ان پر چاقو سے کئی وار کیے۔ فوری طور پر پولیس کو طلب کیا گيا اور اس 25 سالہ مشتبہ ملزم کو گرفتار کر لیا گیا، جس کے پاس سے پولیس نے چاقو بھی برآمد کر ليا۔
زخمی حالت میں چرچ سے باہر لائے جانے سے قبل ایمرجنسی ورکرز نے ڈیوڈ امیس کی حالت کو مستحکم بنانے کی پوری کوشش کی۔ اس دوران انہیں ہسپتال لے جانے کے لیے ایک ہیلی کاپٹر بھی چرچ کے باہر موجود تھا۔ تاہم تمام کوششیں ناکام رہیں اور امیس دم توڑ گئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ مشتبہ حملہ آور نے یہ حملہ اکیلے کیا اور اس قتل کے سلسلے میں تفتیش کاروں کو ممکنہ طور پر مشتبہ کسی اور شخص کی تلاش نہیں۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے ڈیوڈ امیس کو ایک ایسی شخصیت قرار دیا، جو ’اپنے وطن اور اس کے مستقبل کے بارے میں جوش و جذبے سے یقین‘ رکھتے تھے۔ جانسن نے کہا کہ پولیس کو اس قتل کی تحقیقات جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
بورس جانسن کا کہنا تھا کہ سر ڈیوڈ امیس کی موت سے ’’ہر کوئی شدید صدمے سے دوچار ہے۔‘‘ انہوں نے مقتول ڈیوڈ امیس کو ’سیاست میں ایک بہت ہی مہربان، نہایت اچھا اور شریف انسان‘ قرار دیا۔
ڈیوڈ امیس پہلی بار سن 1983 میں رکن پارلیمان منتخب ہو کر دارالعوام پہنچے تھے اور سن 1997 سے ہی ساؤتھ ویسٹ پارلیمانی حلقے سے نمائندگی کرتے آئے تھے۔ کنزرویٹو جماعت کے بیشتر ارکان اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں تاہم امیس کبھی کسی ایلیٹ اسکول میں زیر تعلیم نہیں رہے تھے اور انہوں نے دوران ملازمت پڑھائی کرتے ہوئے یونیورسٹی ڈگری حاصل کی تھی۔
امیس کی پرورش رومن کیتھولک مسیحی عقائد کے تحت ہوئی تھی اور سماجی معاملات میں وہ قدامت پسندانہ سوچ کے حامل انسان تھے۔ انہتر سالہ امیس شادی شدہ تھے اور انہوں نے اپنے پیچھے اپنی اہلیہ کے علاوہ چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کو سوگوار چھوڑا ہے۔ انہیں برطانوی ملکہ نے سن 2015 میں نائٹ ہڈ ایوارڈ سے نوازا تھا، جس کے بعد وہ سر ڈیوڈ امیس کہلانے کے حق دار ہو گئے تھے۔
برطانیہ کے کئی اہم سیاسی رہنماؤں اور سماجی شخصیات نے ڈیوڈ امیس کے قتل پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم بورس جانسن کی اہلیہ کیری جانسن نے ان کی موت کو ایک ’تباہ کن خبر‘ قرار دیا اور کہا کہ مقتول رکن پارلیمان ’انتہائی شفیق‘ انسان تھے۔
برطانوی نائب وزیر اعظم ڈومینیک راب نے بھی ان کی موت پر گہرے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت وسیع القلب اور سخی تھے۔ وزیر تعلیم ندیم ذہاوی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’ساوتھ اینڈ ویسٹ کے لوگ انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔‘‘
ایک اور برطانوی وزیر ساجد جاوید نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ سر ڈیوڈ امیس ’ایک عظیم انسان، عظیم دوست اور عظیم رکن پارلیمان تھے، جو اپنا جمہوری کردار ادا کرتے ہوئے‘ مارے گئے۔