لندن (جیوڈیسک) یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مغربی میڈیا اور سیاستدان دہشت گردوں کا تعلق کسی بھی طرح اسلام سے جوڑنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور اسی سے جڑی ایک واقعہ برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں پیش آیا جب ایک ’’فرضی دہشت گرد‘‘ کو مسلمان دکھایا گیا۔
برطانیہ کے شہر مانچیسٹر کی پولیس نے عوام کو دہشت گرد حملے کے ممکنہ خطرات سے بچانے کے لئے ایک مشق کی جس میں مذہبی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوے فرضی دہشت گرد کو مسلمان دکھایا گیا جو اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے خود کش دھماکا کرتا ہے۔ اس مشق کو حقیقت کے قریب لانے کے لیے 800 رضاکاروں کی مدد حاصل کی گئی۔
مشق رات کے وقت کی گئی جس میں دکھایا گیا کہ کالے لباس میں ملبوس ایک شخص زور سے کچھ کہتا ہوا ایک شاپنگ سینٹر میں داخل ہوتا ہے اور ایک دھماکہ ہو جاتا ہے۔ دھماکے کے بعد لوگ فرش پر گر جاتے ہیں، اکثر نے ایسا تاثر دیا کہ جیسے انھیں بہت زیادہ زخم آئے ہیں اور دوسرے چلاتے رہے جیسے شدید تکلیف میں ہوں۔
مانچیسٹر میں امن کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن ڈاکٹر ایرنما بیل کی جانب سے ’مسلم دہشت گرد‘ کے استعمال پر پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد کوئی بھی ہو سکتا ہے لہذا ہمیں پرانے اور گھسے پٹے تصورات سے باہر نکلنا چاہیئے۔
مانچسٹر پولیس کے نائب چیف کانسٹیبل گیری شیوان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی مشق وقت کی ضرورت ہے جس کا پس منظر انتہا پسند داعش کی طرح کی تنظیم کے فرضی حملے پر مبنی تھا اور اس مشق کو ترتیب دینے والوں نے ویسے ہی حالات تصور کیے تھے جیسے اس قسم کے حملوں کے دوران ہوتے ہیں۔
گیری شیوان کا کہنا تھا کہ سوچ بچار کے بعد ہم تسلیم کرتے ہیں کہ فرضی خود کش بم حملے سے فوری پہلے کسی قسم کے مذہبی جملے کا استعمال ناقابلِ قبول ہے، جو واضح طور پر اس مشق کو اسلام سے جوڑ دیتا ہے۔ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے پیدا ہونے والی کسی قسم کے تکلیف پر معافی مانگتے ہیں۔