لندن (جیوڈیسک) برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف ان کی اپنی جماعت کنزرویٹو پارٹی کی جانب سے پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک بری طرح ناکام ہو گئی۔
واضح رہے کہ بریگزٹ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کنزریٹو پارٹی کے 48 اراکین نے تھریسامے کا بطور پارٹی لیڈر ہونا چیلنج کیا تھا، جس پر انہیں پارٹی کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا ہوا۔
گذشتہ روز ہونے والی ووٹنگ کے نتیجے میں رات 9 بجے تک برطانوی وزیراعظم کے سر پر عدم اعتماد کی تلوار لٹکتی رہی تھی تاہم انہیں توقع سے بھی زیادہ ووٹ ملے اور وہ 37 کے مقابلے میں 63 فیصد ووٹ لےکر کامیاب ہوگئیں۔
ووٹنگ کے نتائج آنے کے بعد اپنی رہائش گاہ کے باہر آکر قوم کو اپنے پیغام میں تھریسامے نے کہا کہ اب بریگزٹ پر عمل کا وقت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ جمعرات کو یورپین کونسل سے ملاقات میں شمالی آئرلینڈ بیک اسٹاپ پر قانونی اور سیاسی یقین دہانیاں حاصل کریں گی، ان کا مشن یہ ہے کہ بریگزٹ پر عمل کریں اور ایسا ملک بنائیں جوسب کے لیے فائدہ مند ہو۔
تاہم تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والےکنزریٹو پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ آئینی طور پر تھریسامے کو وزارت عظمی چھوڑنا ہی پڑےگی۔
ٹوری پارٹی کے چیئرمین سرگراہم بریڈی کا کہنا تھا کہ ووٹنگ کا نتیجہ یہ ہے کہ کنزریٹو پارٹی کو تھریسامے کی قیادت پر اعتماد ہے۔ ان کے حق میں 200 اور مخالفت میں 117 ووٹ آئے ہیں اور پارٹی قانون کے تحت مے کے خلاف 12 ماہ تک کوئی اور ووٹ نہیں ہوسکتا۔
دوسری جانب تحریک عدم اعتماد کا مطالبہ کرنے والےکنزریٹو پارٹی کے رہنما جیکب ریز نے تھریسامے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ پھر دہرایا۔
ٹوری رہنما جیکب ریز نے کہا کہ وزیراعظم فوری طور پر ملکہ سے ملیں اور استعفیٰ دیں۔آئینی اقدار کے تحت وزیراعظم کو مستعفی ہونا چاہیے۔
دوسری جانب تھریسامے کو اعتماد کا ووٹ ملنےکی خبر سے برطانوی پاؤنڈ کو بھی استحکام ملا اور اس کی قدر میں بہتری آئی، تاہم تھریسامے کو اصل چیلنج پارلیمنٹ میں درپیش ہےجہاں لیبر اور ایس این پی ہی نہیں حکمراں کنزرویٹو پارٹی کے بھی کئی اراکین بریگزٹ کے خلاف ووٹ دینے پر تلے بیٹھے ہیں۔
صورتحال ایسی ہے کہ تھریسامے کو پہلے ہی کہنا پڑ چکا ہےکہ وہ اگلے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیں گی۔