تحریر : رضوان اللہ پشاوری میں بچپن ہی سے یہ جملہ سن رہا تھا یہاں تک کہ ہمارے ایک استاد محترم دوران درس بھی یہی کہہ رہے تھے کہ” رور بھائی کا نعرہ۔۔۔امن محبت وبھائی چارہ” مگر میں اس جملہ کو سمجھ نہیں پارہا تھا کہ اس جملہ کا مطلب اور مراد کیا ہے ؟مگر جب آج کل کے ان حالات پر نظر پڑی تو فوراً مجھے استاد محترم کا دوران درس والا یہی جملہ یاد آیا، کیونکہ موجودہ حالات نفسانفسی کی ہے،ہر آدمی اپنے پسینے میں ڈوبا ہوا ہے،کسی کو بھی اپنے دوسرے بھائی کی پوچھ گچھ کے لیے کوئی موقع نہیں مل رہا،ہر آدمی پر آشوب دور سے گزر رہاہے،ان حالات کے آنے کی وجہ کیا ہے؟شائد کہ اس پر ابھی تک کسی نے کچھ سوچا ہو،پشاوری نے بھی گذشتہ دن عوام الناس کو موجودہ ،پرآشوب اور کٹھن زمانے کے ساتھ چلنے کی سعت رکھنے پر لکھنے کے لیے قرآن کریم کی تفسیر اٹھائی تو جیسے ہی تفسیر کھولا تواس میں وحدت،اخوت وبھائی چارگی پر بہت کچھ تھا۔
قارئین کرام آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم موجودہ حالات کے بارے میں کیا لکھتے ہیں؟قرآن کریم اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل اپنے محبوب آقائے نامدار،فخرموجودات،ہادی عالم ،محمد مصطفی،محمد مجتبیٰ،محمدعربی پر نازل کیا تھا،جس کی ابتداء غارحرا سے کی گئی تھی،یہی قرآن کریم ہے جو آج کل ہمارے ہاں موجود ہے،یہی اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے،خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھی،اللہ تعالیٰ نے چودہ سوسال قبل قرآن کریم میں اخوت کوواضح انداز میں بیان کیا گیا ہے ،اہل ایمان کی دو گروہوں کے مابین جنگ کی صورت میں ہماری ذمہ داری قرآن کریم کی اس آیت پر دلالت کرتی ہے کہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں اگرکسی قسم کا اختلاف پید اہوجائے تو مسلمانوں میں اہل فہم وارباب حل وعقد پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس مخالفت کو ختم کروانے کے لیے پوری جد وجہد کریں اور آپس میں صلح کروادیں ۔باہمی اخوت ومحبت کا جو رشتہ جذبات میں مغلوب ہوگیا اس کو زندہ کیا جائے ،اسی لیے اگلی آیت میں تاکیداً فرمایا ”انما المؤمنون اخوة ” اور ساتھ ہی وہ بنیا د واساس بھی ظاہر کردی گئی جس پر اخوت کی عظیم عمارت قائم ہوسکتی ہے اور وہ ہے اللہ کا خوف ،تومعلوم ہو ا کہ کھبی اگربھائیوں کی لڑائی ہوجائے تو اپنے دونوں بھائیوں میں اصلاح کردیاکرو کیونکہ دونوں گروہ بہر حال تمہارے بھائی ہیں،
آپ کے ارشادات مبارکہ کابھی ایک بڑا ذخیرہ اس بارے میں منقول ہے،آپ نے فرمایا کہ باہمی محبت اور تعلق میں اہل ایمان کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ اگر ایک عضو بیمار ہوجائے تو پورا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے ،آپ نے ہجرت کے بعد سب سے پہلے شہر کے باشندوں کے باہم تعلقات کی طرف توجہ دی ۔آپ نے محسوس فرمایا تھا کہ مہاجرین مکہ اہل مدینہ کے لیے باعث اذیت نہ ہو نے پائے اور ساتھ ساتھ مہاجرین ہجرت کی وجہ سے دل شکستہ نہ ہو ،چنانچہ آپ نے تمام مہاجرین وانصار کو جمع کرکے اخوت کا وعظ فرمایا او ر مسلمانوں کے اندر مواخاة قائم کرکے نہایت خوشگوار معاشرہ تشکیل فرمایا ۔اس عہد مواخاة کو انصار نے اس خلوص کے سے نبھایا کہ تاریخ میں کوئی دوسری نظیر تلاش نہیں کی جاسکتی ۔تمام مہاجرین کو حقیقی بھائی سمجھا اور بے دریغ مال واسباب ان کے سپر د کیا ۔بعض انصار نے اپنے دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق دے کر مہاجر بھائی سے اس کے نکاح کے لیے تیا ر ہوئے ۔مہاجرین نے بھی نہایت ہمت کے ساتھ مزدوریاں کیں اور اپنے پاؤ ں پر کھڑے ہوگئے۔
Islam
اسلامی اخوت کاتقاضہ یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کو ایک جیسے حقوق دے جائے حتٰی کہ غیر مسلم اقلیتو ں کے حقوق کی صرف تحفظ کی جا ئے بلکہ ایک ایسا پر امن معاشرہ تشکیل دی جا ئے جو پوری عالم کے لئے اپنی مثال آپ ہو ۔اسیی طرح سیاسی یا مذہبی مواخاة بھی کی جائے تاکہ تمام ترجماعتیں اپنی سیاسی او ر مذہبی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں ،لیڈر بننے کی شوق میں امت کو مزید تقسیم نہ کیا جائے ،اس سے تعصب اور تفرقہ وجود میں آئے گا ۔کسی نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے جماعت بناکر امت کو تقسیم کیا اور کسی نے مذہب کے نام پر وحدت کی طرف بلانے کے لئے ایک امیر المؤمنین کا انتخاب کیا اور باقی سب مسلما ن اس کے ماتحت ہو ں حضرت عمر فرماتے ہیں کہ اسلام اجتماعی زندگی کا نام ہے ۔جمہوریت کا نہیں جمعیت کا نام ہے،
تاریخ کو دیکھا جائے تو ہٹلر (Hitller) نے ایک باطل مقصد کے لئے تمام عیسائی دنیا کو جمع کیا اور اس میں کسی حد تک کا میا ب بھی ہوئے ۔یوں مسلمانو ں کو اس وقت ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو صحیح رخ متعین کرنے کے بعد ملت اسلامیہ میں اخوت پید اکرکے ایک مثالی حکومت قائم کرے ۔ جمہوریت کو چھو ڑ کر خلافت کا راستہ اپنایا جائے ،جمہوریت میں افراد کی گنتی تو کی جاتی ہے لیکن تولا نہیں جاتا ۔ایک عالم اور شریف آدمی ووٹ کے اعتبار سے شرابی کے برابر ہے ۔جمہوریت ہی کی وجہ سے آج تمام عالم کے مسلمان کئی جماعتوں میں بٹ گئے ہیں ،خلافت کے قیام سے خلافت عثمانیہ کی طرح سب مسلمان ایک جسم کے مانند ہوجائیں گے اور اس کے لئے اساس ایمان اور اعمال صالحہ ہیں جیسا کہ سورة النور میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔
فروعی اختلافات کی بجائے اجتماعی مفادات کو مد نظر رکھا جائے فروعی مسائل کو بنیاد بناکر اختلافات نہ کیا جائے ۔اگر چار فقہی مکاتب فکر وجود میں آئے ہیں تو وہ تعصب کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے اپنے اصول وقواعد کی بنیا د پر اور اجتہاد کی قوت پر ۔اگر حضرات ائمہ کر ام کی سیرت پر نظر ڈالا جائے تو اس فروعی اختلاف کے باوجود وہ ایک دوسرے کے دلدادے تھے اور ایک دوسرے کی حد درجہ کی عزت کرتے تھے ۔آج ہماری حالت اگر بدلے گی تو ہمیں خود ہی اس کے لئے محنت کرنی پڑی گی۔ خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو خیا ل جس کو اپنی حالت بدلنے کی قارئین کرام آئیے عہد کرتے ہیں کہ ہمیں جب بھی اپنی راہ میں کچھ روکاوٹ نظر آجائے ،یا کوئی اہم مسئلہ در پیش ہو توسب سے پہلے قرآن کریم کو کھولیں گے کیونکہ اس میں سب کچھ ہے ،اللہ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو(آمین)
Rizwan Peshawari
تحریر : رضوان اللہ پشاوری رابطہ نمبر: 0333-9036560/0313-5920580 [email protected]