برسلز (پ۔ر) بلجیم کے دارالحکومت برسلز میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم لوگوں کی انسانی حقوق حقوق کی خلاف ورزیاں کی روک تھام کے لیے بھارت پر دباو ڈالا جائے، خاص طور پر کشمیری خواتین کے مصائب کو کم کرنے کے لیے اقدامات کئے جائیں۔
’’جنگ زدہ علاقوں میں ذہنی اذیت سے نکلنے کے لئے ایک خاتون کی جدوجہد‘‘ کے موضوع پر یہ بین الاقوامی کانفرنس یورپی پارلیمنٹ میں منعقد ہوئی۔
عالمی یوم خواتین کے موقع پر اس کانفرنس کے انعقاد کے لیے کشمیرکونسل یور پ (ای یو) کو اراکین یورپی پارلیمنٹ واجد خان، جولی وارڈ، ڈاکٹرسجاد کریم کا تعاون حاصل تھا۔
کانفرنس میں دانشور، اراکین پارلیمنٹ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے اراکین، یورپی اداروں کے عہدیداران اور دیگر اہم شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔
چیئرمین کشمیرکونسل ای یو نے شرکا کا خیرمقدم کرتے ہوئے کانفرنس کے مقاصد بیان کئے۔ رکن ای یو پارلیمنٹ واجد خان نے بتایاکہ یورپی یونین ’’جنگ زدہ علاقوں میں لوگوں کو ذہنی اذیت سے نکالنے کے لئے‘‘ کیا کررہی ہے یا اسے کیا کرنا چاہیے۔ اسی موضوع پر رکن ای یو پارلیمنٹ سجاد کریم نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ رکن ای یو پارلیمنٹ جولی وارڈ نے خواتین خصوصا جنسی مساوات کے موضوع پر بات کی۔ پاکستانی محقق نگہت افتخار نے ’’جنگ زدہ علاقوں میں ذہنی اذیت‘‘ کے مسائل کے بارے گفتگو کی۔
کانفرنس کے دوران کنن پوشپورہ کے بارے میں کتاب ’’کیا کنن پوشپورہ یاد ہے‘‘ کی مصنف خواتین نتاشہ راتھر اور ایثار بتول کی ریکارڈ شدہ گفتگو پیش کی گئی جس میں انھوں نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کنن پوشپورہ کے واقعے میں ملوث عناصر کو سزا دلوانے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کرے۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیرمیں پیلٹ گن کے بے دریغ استعمال کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ویڈیو رپورٹ دکھائی گئی۔
رکن برسلز پارلیمنٹ ڈاکٹر ظہورمنظور نے کنن پوشپورہ کے خصوصی حوالے سے جنگ زدہ علاقوں میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے موضوع پر بات کی۔ سابق رکن ای یو پارلیمنٹ ڈینیل کارون نے جنگ زدہ علاقوں میں ذہنی صحت اور فیملی تعلقات کے بارے میں گفتگو کی۔
انسانی حقوق کی کارکن یاسمین ابراھیم نے جنگ زدہ علاقوں اور کشمیرمیں طلبا کی ذہنی اذیت کے بارے بات کی اور اس کے علاوہ کانفرنس کے دوران پیلٹ گن سے پیدا ہونے کے مسائل پر اظہارخیال کیا گیا۔ کانفرنس کے دوران فری کشمیرآرگنائزیشن برلن کے چیئرمین ڈاکٹر صدیق کیانی نے بھی خطاب کیا ۔ عالمی مسائل پر محقق اور انسانی حقوق کی علمبردار ماریان لوکس نے خواتین کے ذہنی اذیت کے مسائل اور مقامی کمیونٹی کے کردار کے بارے اظہارخیال کیا۔ کانفرنس کے موقع پر سوالات کے جوابات کا سیشن بھی ہوا جس کے دوران شرکا نے کانفرنس کے دوران پیش کئے گئے موضوعات پر سوال کئے اور آئندہ کے لایحہ عمل پرتفصیلی تبادلہ خیالات کیا گیا۔
کشمیرکونسل ای یو نے اعادہ کیا کہ وہ کشمیریوں کے حقوق کی پامالیوں کو یورپی یونین کی سطح پر اٹھائے گی اور اس سلسلے میں جموں و کشمیر سول سوسائٹی کے اتحاد کے کوآرڈی نیٹر اور ایشین فیڈریشن برائے جبری گم شدہ افراد کے چیئرمین خرم پرویز کی رپورٹوں کی روشی میں کام کیا جائے گا۔ کانفرنس کے دوران اس بات پر زور دیا گیا کہ کنن پوشپورہ کے واقعے سمیت مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالیوں کے متاثرین کو یورپ بلایاجائے تاکہ یورپ کو مقبوضہ کشمیر کے اصل حقائق سے آگاہ کیا جاسکے۔ ریسرچر سعدیہ میر کے اختتامی ریمارکس کے ساتھ کانفرنس اختتام کو پہنچی۔
یہ کانفرنس گذشتہ ہفتے برسلز میں شروع ہونے والی کشمیرکونسل ای یو کی اس آگاہی مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد ستائیس سال سے فراموش شدہ کنن۔پوشپورہ کے بھیانک واقعے کو ایک بار پھر اجاگر کرناتھا۔
کانفرنس کے دوران جنسی زیادتی اور تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی جسمانی اور ذہنی کیفیت کی بحالی کے لیے اقدامات پر بھی زور دیاگیا اور خواتین کی جدوجہد کو اجاگر کیا گیا۔
یاد رہے کہ آج سے ستائیس سال قبل یعنی23 فروری 1991 ء کی رات بھارتی فوج کی راجپوتانہ رائفل کے اہلکاروں نے ضلع کپواڑہ کے دوگاوں کنن اور پوشپورہ کو تلاشی کے بہانے محاصرہ لے کر وہاں درجنوں خواتین کی بے حرمتی کی اور انہیں جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایاتھا۔
اگرچہ اس واقعے کو اڑھائی عشروں سے زائد مدت گزر چکی ہے لیکن اس انسانیت سوز واقعے میں بچ جانے والی خواتین کی اس ظلم کے خلاف جدوجہد کی بدولت مقبوضہ کشمیرمیں اس دن کو خواتین کے یوم مزاحمت کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔ کشمیری اس جدوجہد کو کشمیرکی آزادی کے لیے جاری تحریک کا حصہ قرار دیتے ہیں جو سترسالوں سے بھارتی قبضے کے خلاف جاری ہے۔
مقررین نے اس موقع پرعالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق خصوصاً خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے سنجیدہ اقدامات کرے۔خاص طور پر کنن۔پوشپورہ کے واقعے میں ملوث بھارتی اہلکاروں کو بلاتاخیر سزا دلوانے کے لیے بھارت پر دباو ڈالا جائے۔ چیئرمین کشمیرکونسل ای یو علی رضا سید نے اس عزم کااظہارکیاکہ وہ کشمیریوں کے حقوق کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ خاص طورپرمقبوضہ کشمیرکی خواتین کے حقوق کے لئے آوازبلند کریں گے۔
مقررین نے کہاکہ عالمی برادری خاص طورپر بڑی طاقتوں کوچاہیے کہ وہ مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکوائیں۔ بڑی تعداد میں خواتین مشکلات کا شکارہیں۔ ہزاروں خواتین ایسی ہیں جن کے مرد بھارتی فوج کے ہاتھوں جبری طورپرلاپتہ ہوچکے ہیں۔ کسی کا خاوند ، کسی کا باپ ، کسی کابھائی اور کسی کابیٹالاپتہ ہے ۔ یہ افراد ماورائے عدالت جعلی مقابلوں میں مارے جاچکے ہیں یا کوئی پتہ ہیں۔ ان کی خواتین اپنے پیاروں کی منتظرہیں۔ مشکلات کایہ سلسلہ سترسالوں سے جاری ہے لیکن ان کے مصائب کم نہیں ہورہے۔ ان میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔