تحریر : عثمان غنی انسانیت معاشرے کی معراج ہے اور انسان اشرف المخلوقات، دنیا کا خلیفہ، برتری کا معیار ، صرف تقویٰ کو حاصل ہے رنگ نسل، ذات پات کوہر گز نہیں ،زمین کی تہوں کو کریدنے ، سمندروں کی گہرائیوں کو تسخیر کرنے ، ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے باوجود ، آج کے انسان کے ہاتھوں انسان کا ایسا خوفناک انجام کہ خدا کی پناہ بقول جان ایلیا!
نئی منزل کی راہ ڈھونڈو تم میرے غم سے پناہ ڈھونڈو تم
دنیا کے گلوبل ویلج ہونے سے فاصلے تیزی سے سمٹ رہے ہیں نئی نئی ایجادات سے مارکیٹوں کی رونقیں بڑھ رہی ہیں ۔ زندگی کی رفتار انگڑائیاں لینے میں کسی سے پیچھے نہیں حتیٰ کہ کاروبار زندگی کی گاڑی بھی کسی موٹروے پر برق رفتاری سے فراٹے بھرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ اس کا کریڈٹ سائنسی ترقی کو دیا جاسکتا ہے جس نے زندگی کے پہیے کو کئی Anglesسے گھما رکھا ہے مگر جو ارفع چیز بدقسمتی سے بلند ہونے سے قاصر رہی وہ ہے’ معیار زندگی ‘،”انسان کی خبر لو کہ دم توڑ رہا ہے ” والا مصرعہ یاد آیا ہے۔
انسانی جان سارا جہاں ہوا کرتی ہے مگر جن پہ تکیہ ہو وہ پتے بھی اکثر و بیشتر ہوائوں کے نشتر برسا ڈالتے ہیں ۔ چند ہفتے پہلے ادویہ ساز کمپنیوں نے نئی قانون سازی سے خاصا ”خفا” ہو کر ایک تگڑا قسم کا دھرنہ حکومت کے منہ پر دے مارا تھا ، مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ احتجاج اور دھرنوں سے حکومت وہ مطلوبہ Demandجلد از جلد پوری کر سکے یا ناں ، عوام کو خواری کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے ۔ کبھی بازار ، کبھی سڑکیں ، کبھی ٹرانسپورٹ بند ، حکومت کا کہنا مگر یہ تھا کہ اب مزید Substandard دوائیوں کی تیاری و فروخت کی اجازت نہیں دی جائیگی۔
Selling Medication
مزید برآں Substandardدوائیوں کی سیل و فروخت کرنے والوں کو چھ ماہ سے لیکر 5سال قید اور ایک سے پانچ ملین تک جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔ اس ترمیم پر Pharmaceuticalکمپنیوں نے شدید احتجاج کرتے ہوئے اس نئی ترمیم کو واپس لینے کا مطالبہ کیاتھا ۔ یاد رہے کہ پاکستان میں ڈرگ ایکٹ 1976ء میں لاگو کیا گیا تھا ۔ یعنی تین دہائیوں سے ”معاملات” یوں ہی چلتے رہے اور جب انہیں قانون کا پابند کرنے کی کوشش کی گئی تو ”آئینہ ان کو دیکھایا تو برا مان گئے ” والا حساب ہو گیا ڈرگ ریگولیٹر اتھارٹی(DRAP) ایک مجبور و محکوم محکمہ ہے جو اپنے ہی وضع کیے گئے قوائد و ضوابط پورے کرنے سے یکسر قاصر رہا ہے، 40ہزار Pharmaceuticalکمپنیوں کیلئے صرف 9ہزار Pharmacistsکی موجودگی ، کچھ باغبانوں کے برق و شر سے رابطوں کی نوید ہے ،اس سے گھمبیر بات Substandardدوائیوں کی Manufacturingاور فروخت ہے جس پر توجہ دلانے سے نازک آبگینوں کو ٹھیس جا پہنچی تھی۔
اب تک غیر معیاری ادویات کی تیاری و فروخت پر کوئی گرفتاری تو سامنے نہیں آسکی مگر کچھ غیر معیاری ادویات ضرورت سامنے آ گئی ہیں جن میں Methergin, Syntocinonاور Voltral انجکشن قابل ذکر ہیں جن میں زہر آلود اور شیشے کے ذرات پائے گئے ہیں ۔ ان ٹیکوں کی مارکیٹ میں تعداد چار کروڑ سے زیادہ ہے ان ٹیکوں کا استعمال دوران حمل کیاجاتا ہے اور بچہ اس رنگ وبو میں آنکھ کھولنے کے ساتھ ہی ایک طرف اپنے آپ کو غیر ملکی قرضوں میں مقروض اور دوسری طرف غیر معیاری دوائیوں کے ”زہر ” کو اپنے وجود کا حصہ پاتا ہے ۔ شنید یہ ہے کہ اب ایک نئی فارماسوٹیکل چین کو مارکیٹ میں لایاجارہا ہے ،غیر معیاریStuntsکی فروخت کے پے در پے واقعات سامنے آنے پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے غیر معیاری Stuntsکے غیر قانونی دھندے پر وزیراعظم کی جانب سے جواب نہ داخل کرانے پر اظہار برہمی کیا ہے اور کہا ہے کہ جان و مال سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ Stunts کا استعمال دل کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں میں کیا جاتا ہے جن میں Valvular بیماریاں اہم ہوتی ہیں۔ اب DRAPنے اس مکروہ دھندہ کا نوٹس لیتے ہوئے Stuntsکی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو ایک عام شہری کی دسترس میں لانے کیلئے ایک ”پرائسنگ پالیسی ” تیار کی ہے ،DRAPکے مطابق Stuntsکی قیمتوں میں منافع کی شرح زیادہ سے زیادہ 50فیصد تک ہو گی۔
اس پالیسی کے مطابق 50ہزار میں تیار ہونے والا Stuntsبشمول ڈاکٹر فیس و ہسپتال چارجز 80ہزار رپے تک فروخت ہونے کی توقع ہے ۔ وزیراعظم کی جانب سے مگر تین ہفتے گزر جانے کے باوجود غیر معیاری Stuntsکی انسانی جسموں میں Insertionپر جواب سپریم کورٹ میں داخل نہیں کیا جا سکا ۔ دنیا میں ہر نئی انسانی جان کے ظہور سے لیکر دل کے بے چارے مریض ،سائنس کے موجودہ ترقی یافتہ دور میں اپنے آپ کو بے بس پا رہے ہیں بات مگر صرف Lawکی نہیں ۔ Rule Of Law (قانون کی حکمرانی) کی طرف جا نکلتی ہے جس کی طرف جانے کو ارباب چنداں تیار نہیں۔