برطانیہ (جیوڈیسک) لندن سے موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کو، جنہیں بریگزٹ سے متعلق پہلے ہی بہت سے سیاسی مشکلات اور تنقید کا سامنا ہے، لندن کی پارلیمان میں برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے طریقہ کار سے متعلق ایک بہت اہم رائے شماری میں بڑی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
نو جنوری بدھ کے روز ہونے والی یہ رائے شماری اس بارے میں تھی کہ اگر بریگزٹ ڈیل پر اگلے ہفتے ہونے والی پارلیمانی ووٹنگ میں برطانوی دارالعوام کے ارکان کی اکثریت نے اسے مسترد کر دیا، تو مے حکومت کو نئے متبادل امکانات کی تلاش کے لیے ملنے والی مہلت کا دورانیہ کتنا اور طریقہ کیا ہونا چاہیے۔
اس بارے میں ویسٹ منسٹر میں ارکان پارلیمان نے آج بدھ کو 297 کے مقابلے میں 308 ووٹوں کی اکثریت سے یہ قرارداد مسترد کر دی۔ اس قرارداد میں بریگزٹ ڈیل پر آئندہ پارلیمانی ووٹنگ ممکنہ طور پر ناکام رہنے کے بعد پارلیمانی فیصلہ سازی کا طریقہ کار بدلنے کی بات بھی کی گئی تھی۔
برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کا فیصلہ ملکی عوام نے ایک ریفرنڈم میں کیا تھا اور اس بارے میں لندن حکومت کی برسلز میں یورپی یونین کے ساتھ ایک ڈیل بھی طے پا چکی ہے۔
مے حکومت نے اس طے شدہ بریگزٹ ڈیل کی برطانوی پارلیمان کی طرف سے منظوری کے لیے رائے شماری کی خاطر پندرہ جنوری کی تاریخ مقرر کر رکھی ہے۔ لیکن یہ بات قطعی غیر یقینی ہے کہ آیا اس رائے شماری میں برطانوی ارکان پارلیمان اس ڈیل کی منظوری دے دیں گے۔
اس سے قبل اسی ڈیل پر یہ رائے شماری دسمبر میں کرانے کا پروگرام بنایا گیا تھا۔ تاہم وزیر اعظم مے نے یہ رائے شماری اس لیے ملتوی کر دی تھی کہ تب انہیں کافی حد تک یقین تھا کہ پارلیمانی ارکان لندن اور برسلز کے مابین طے پانے والے اس انتہائی اہم معاہدے کو مسترد کر دیں گے۔
برطانیہ کے بارے میں سیاسی ماہرین کے یہ خدشات بھی اب عام ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ لندن کو برسلز میں یورپی قیادت کے ساتھ کسی باقاعدہ معاہدے کے بغیر ہی یورپی یونین سے نکل جانا پڑے، جس کے لیے ’سوفٹ بریگزٹ‘ کے متضاد کے طور پر ’ہارڈ بریگزٹ‘ کی اصلاح بھی استعمال کی جا رہی ہے۔