لندن (جیوڈیسک) برطانوی دارالعوام کے ارکان نے کثرت رائے سے یورپی یونین سے علاحدگی کی ڈیل کو مسترد کردیا ہے اور یورپی یونین سے برطانیہ کی طلاق کا معاملہ لٹک کررہ گیا ہے۔ ڈیل کی نامنظوری کے بعد حزب ِاختلاف کے لیڈر جیریمی کاربائن نے وزیراعظم تھریزا مے کے خلاف تحریک عدم ِ اعتماد پیش کرد ی ہے۔
وزیراعظم تھریز امے نے یورپی یونین سے بریگزٹ کا سمجھوتا طے کیا تھا لیکن منگل کی رات پارلیمان کے ایوان زیریں دارالعوام میں اس کی منظوری کے لیے رائے شماری کے وقت 432 ارکان نے اس کے خلاف ووٹ دیا ہے اور صرف 202 ارکان نے اس کی حمایت کی ہے۔اس طرح مے حکومت کو 230 ووٹ سے شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔
دارالعوام میں گذشتہ پانچ روز سے بریگزٹ سمجھوتے پر بحث جاری تھی۔تھریز امے نے سیاست دانوں سے یورپی یونین سے طے شدہ اپنی اس ڈیل کی حمایت کی اپیل کی تھی اور ساتھ ہی یہ کہا تھا کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر وہ برطانوی عوام کو نیچا دکھا دیں گے۔
لیبر پارٹی کے لیڈر جیریمی کاربائن نے کہا ہے کہ دارالعوام میں وزیراعظم تھریزا مے کے خلاف پیش کردہ ان کی تحریک ِعدم اعتماد پر بدھ کو بحث ہوگی تاکہ ارکان حکومت کی نااہلی کے حوالے سے اپنی اپنی رائے کا اظہار کرسکیں۔انھوں نے کہا کہ 1920ء کے عشرے کے بعد پارلیمان میں کسی جماعت کی یہ سب سے بڑی شکست ہے اور حکومت دوسری جماعتوں سے رجوع کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہے۔
انھوں نے کہا:’’ حکومت کو یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ برطانیہ کسٹمز یونین کا حصہ رہے گا اور بریگزٹ پر کسی ڈیل کا نہ ہونا کوئی آپشن نہیں اور یورپی یونین کے شہریوں کے حقوق کو تسلیم کیا جانا چاہیے‘‘۔
وزیراعظم تھریز ا مے نے دارالعوام میں اپنی حکومت کی تاریخی شکست کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ارکان کو عدم اعتماد کی تحریک پر بحث کا موقع دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ رائے شماری کا نتیجہ ہمیں یہ تو بتاتا ہے کہ پارلیمان کے ارکان ڈیل کو نہیں چاہتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں بتاتا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
انھوں نے پارلیمان میں اپنی تقریر میں مزید کہا کہ وہ پہلے تو اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ کیا ارکان پارلیمان کو ابھی تک ان کی حکومت پر اعتماد ہے۔اگر جیریمی کاربائن عدم اعتماد کی تحریک پیش کرتے ہیں تو اس پر کل ( بدھ کو) بحث ہوگی لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو حکومت دوسری جماعتوں کو تحریک پیش کرنے کی اجازت دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ بریگزٹ کی متبادل حکمت عملی کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گی اور اس کے بعد ایک مرتبہ پھر یورپی یونین کے پاس جائیں گی۔