بریگزٹ: دو سالہ مذاکرات کے بعد بھی سب کچھ پھر نئے سرے سے

Protest

Protest

لندن (جیوڈیسک) برطانیہ بریگزٹ کے حوالے سے یورپی یونین کے ساتھ دو سالہ مکالمت کے بعد بھی آج ایک بار پھر وہیں کھڑا ہے، جہاں دو سال پہلے تھا۔ برطانوی پارلیمان میں بریگزٹ سے متعلق آٹھ مختلف قراردادوں پر رائے شماری ہو رہی ہے۔

برطانوی دارالحکومت لندن سے مختلف نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق ملکی پارلیمان کے دارالعوام یا ہاؤس آف کامنز کہلانے والے ایوان زیریں کے اسپیکر جان بَیرکاؤ نے کہا ہے کہ یہ ایوان آج ہی بریگزٹ کے معاملے میں تمام تر امکانات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک ایک کر کے کئی مختلف قراردادوں پر اپنی رائے دے گا۔

یہ پارلیمانی کارروائی برطانیہ کے یورپی یونین سے اس مجوزہ اخراج سے متعلق ہو گی، جس کے لیے طے شدہ پروگرام کے مطابق تو انتیس مارچ یعنی پرسوں جمعے تک کی تاریخ مقرر تھی لیکن جس میں توسیع کے لیے اب وزیر اعظم ٹریزا مے یورپی یونین کو باقاعدہ خط بھی لکھ چکی ہیں۔

لندن میں ہاؤس آف کامنز میں آج شام جن قراردادوں پر ارکان پارلیمان رائے شماری میں حصہ لیں گے، ان کے ذریعے یہ طے کیا جائے گا کہ آیا یہ منتخب عوامی نمائندے بریگزٹ کے خواہش مند بھی ہیں یا نہیں اور اگر ہیں تو یہ عمل کس طرح مکمل کیا جانا چاہیے۔

اس طرح دیکھا جائے تو لندن حکومت کی اب تک کی وہ تمام کوششیں عملاﹰ بے نتیجہ ہی ثابت ہوئی ہیں، جو گزشتہ دو سال کے دوران کی گئی تھیں اور پھر ٹریزا مے یورپی یونین کے ساتھ ایک باقاعدہ بریگزٹ معاہدہ طے کرنے میں بھی کامیاب ہو گئی تھیں۔ لیکن اس معاہدے کی برطانوی پارلیمان دو بار ہونے والی رائے شماری کے باوجود منظوری نہیں دے سکی تھی۔

موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔

مختلف نیوز ایجنسیوں نے لندن سے اپنے مراسلوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ دارالعوام میں آج ایک ایک کر کے جن کُل آٹھ قراردادوں پر رائے دہی کا پروگرام بنایا گیا ہے، ان میں جو تجاویز دی گئی ہیں، وہ ’’صفر سے لے کر سو فیصد بریگزٹ تک‘‘ ہر طرح کے امکانات کا احاطہ کرتی ہیں۔

ان میں سے چند قراردادیں اس بارے میں بھی ہیں کہ آیا برطانیہ یورپی یونین سے نکل جائے، اور اگر ہاں تو کیسے اور بریگزٹ پر عمل درآمد کے وقت لندن کو کیوں اور کس طرح کن کن یورپی اداروں یا معاہدوں میں آئندہ بھی شامل رہنا چاہیے۔

اس رائے شماری اور اس کے نتائج پر عمل درآمد کی برطانوی حکومت پابند نہیں ہو گی لیکن یوں یہ انداہ لگایا جا سکے گا کہ برطانیہ اپنی پارلیمان کی سطح پر یورپی یونین کے ساتھ اپنے مستقبل کے تعلق کے حوالے سے آخر چاہتا کیا ہے؟

جہاں تک اس عمل پر وزیر اعظم ٹریزا مے کے ممکنہ طور پر اثرا نداز ہونے کا سوال ہے، تو سیاسی ماہرین کے مطابق یہ طے ہو چکا ہے کہ اب معاملہ مے کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے اور وہ تو ملکی پارلیمان میں اس بارے میں آج کی رائے شماری کو رکوانے میں بھی کامیاب نہ ہو سکیں۔

اندازہ ہے کہ ان پارلیمانی قراردادوں کے ممکنہ نتائج آج بدھ ستائیس مارچ کو عالمی وقت کے مطابق رات تقریباﹰ دس بجے تک سامنے آ سکیں گے۔