تحریر : روہیل اکبر بجٹ سے قبل اپنے وزیراعظم سے ملاقات کی خواہش کسانوں کو مہنگی پڑ گئی یہ وہی کسان ہیں جن کی خدمت کے بڑے بڑے دعوے آئے روز اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات کی صورت میں پڑھنے کو ملتے ہیں اور آج بجٹ سے قبل یہی کسان اپنے حق کے لیے اپنے ہی وزیراعظم سے چند منٹ کی ملاقات کرنے جب پارلیمنٹ کے باہر ڈی چوک میں پہنچے تو وہاں کی پولیس نے ان ستائے ہوئے کسانوں پر ظلم کی انتہا کردی جناب وزیراعظم صاحب آپ انہی کے ووٹوں سے آج ایوان میں آپ اپنا پانچواں بجٹ پیش کررہے ہیں پہچانیں انہیں جن کے ووٹوں کے طفیل آج آپ سخت گرمی میں بھی سردی کے مزے لے رہے ہیں اور جن کی قسمت تبدیل کرنے کے وعدے آپ نے ان سے کیے تھے وہ آج تک پورے نہ ہوسکے سخت گرمیوں کی تپتی ہوئی دھوپ میں وہ کوئی پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے تھوڑا ہی آئے تھے وہ تو صرف ان وعدوں کی یاد دھانی کروانے آئے تھے جن کا آپ نے ان سے کئی سال پہلے وعدہ کیا تھا۔
جناب وزیراعظم صاحب یہ وہی کسان ہیں جو زمین کا سینہ چیر کر پورے ملک کے لیے اناج پیدا کرتے ہیں دوسروں کے لیے آسانیاں پیداکرنے والے جب اپنے حقوق کی بات کرنے آپ کے شہر میں آئے تو بجائے اس کے کہ آپ انکا خندہ پیشانی سے استقبال کرتے انہیں اپنے ساتھ بٹھاتے انکی باتیں سنتے انکی خاطر تواضع کرتے اور پھر انہیں اپنے ہمراہ اسمبلی کے اندر لے کر چلے جاتے جہاں پر وہ بجٹ سنتے یقین جانیئے یہی کسان جو سخت گرمی میں حکومت کے خلاف نعرے لگارہے تھے وہ بجٹ تقریر میں وزیراعظم کے حق میں نعرے لگانا شروع کردیتے مگر ہماری سیاسی تاریخ میں آج تک ایسا نہیں ہوا ہمیشہ احتجاج کرنے والوں پر شیلنگ ہوئی ،تشددکیا گیا اور پھر انہیں گرفتار کرلیا جاتا ہے جناب وزیراعظم صاحب آپ ،آپ کی کابینہ اور ممبران انہی کے ووٹوں سے برسراقتدار آئے ہیں تمام پاکستانی ہیں اور محب وطن ہیں اس بات سے قطع نظر کے انکی سیاسی وابستگیاں کس کے ساتھ ہیں۔
آپ کا فرض تھا کہ آپ انکے مسائل کو سنتے اور انہیں حل کروانے کی کوشش بھی کرتے آپ سمیت تمام اراکین اسمبلی آئے روز نئے کپڑے اور جوتے خریدتے ہیں مگر آپ کے یہ ووٹر کئی کئی سال جوتہ نہیں خرید سکتے نئے کپڑے نہیں سلواسکتے ٹوٹی جوتی اور پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ کئی کئی سال گذار دیتے ہیں ان کے اندر اتنی بھی سکت نہیں ہوتی کہ وہ کسی پیزا شاپ کے اندر بھی گھس سکیں یہ لوگ تو سال بھر میں ایک کلو جلیبیاں ہی خرید سکیں تو انکی خوشی کی انتہا نہیں رہتی سرکاری سکولوں کے کھنڈرات میں اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں اپنا پیٹ کاٹ کر انکی فیسیں جمع کرواتے ہیں کوئی میٹرک ،ایف اے یا بی اے کرلے تو پھر انہیں انکی ملازمت کی فکر پڑ جاتی ہے اور پھر یہ ناسمجھ اپنے حق کے لیے انہی کے پاس جاتے ہیں جن کو یہ لوگ اپنا قیمتی ووٹ دیتے ہیں جہاں انہیں انکے ایم پی اے اور ایم این اے میٹھی گولیاں دینا شروع کرتے ہیں یہ صرف ایک حلقے کا ہی معاملہ نہیں بلکہ کسانوں ،مزدوروں اور پاکستان میں بسنے والے ہر غریب افرادکے ساتھ ایسا ہی ہورہا ہے جو اپنا حق مانگنے کے لیے احتجاج کا راستہ اختیارکرتا ہے اسے حکمران تشدد کانشانہ بناتے ہیں اور پابند سلاسل کردیتے ہیں کیا ہی بہتر ہوتا کہ حکومت کسانوں کو شوگر مل مافیا اور واپڈا کے ہاتھوں لٹنے سے بچالیتی ایک سال تک گنے کی کاشت سے لیکر مل تک پہنچانے تک کسان کا خون بھی پسینہ بن چکا ہوتا ہے مگر شوگر مل مافیااسے ایسے چکر لگواتے ہیں جیسے واشنگ مشین کپڑے کو چکر دیتی ہے اوپر سے واپڈا سمیت دوسرے سرکاری اداروں نے انکی رہی سہی کسر پوری کررکھی ہے افسر شاہی دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹنے میں مصروف ہے۔
پولیس غریب عوام کی چھترول اور ڈاکوؤں کے پروٹوکول میں مصروف ہے غریب عوام پریشان ہے اور لوٹ مارکرنے والے آج سکون کی زندگی گذار رہے ہیں ایسے حالات میں اپنا حق مانگنا جرم بن چکا ہے اور بلخصوص کسانوں پر احتجاج کے دوران سخت گرمی میں تشدد سے بھر پور کاروائی کرنا نہ صرف کسانوں پر ظلم اور زیادتی ہے بلکہ ہر اس پاکستانی پر تشدد ہے جو اپنے حقوق کے لیے بیدار ہے یہ صرف ان کسانوں پر تشدد نہیں ہے جو اسلام آباد پارلیمنٹ کے باہر موجود تھے بلکہ یہ ہر اس شہری پر بھی تشدد ہے جو غربت کی چکی میں پستا پستا اپنے بچوں کے اعلی مستقبل کے خواب دیکھتا ہوا۔
قبر کی دیوار سے جا لگا یہ لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ صرف ڈی چوک میں اپنا حق مانگنے والے ان کسانوں پر ہی نہیں تھا بلکہ ہر اس ووٹر پر بھی ہے جس نے سنہرے مستقبل کے لالچ میں ان حکمرانوں کو ووٹ دیے جھوٹے و عدے کرنے والوں نے مسلسل چار سال سڑکوں پر رکھا کبھی اساتذہ اپنا حق مانگنے سڑکوں پر آرہے ہیں تو کبھی نرسیں دھرنہ دیکر اپنا حق مانگ رہی ہیں اور تو اور لوگ اپنے جنازے اٹھا کر بیچ چورے رکھ کر احتجاج کررہے ہوتے ہیں جہاں قاتل آزادگھوم رہے ہوں اور مظلوم جیلوں میں سڑ رہے ہوں تو وہاں پر حکومت کی طرف سے ترقی کے تمام دعوے سوائے فراڈ اور دھوکہ کے کچھ نہیں ہے جہاں غریب کو انصاف نہ ملے ،صحت کی سہولیات نہ ہوں اور تعلیم پورے آب تاب سے بک رہی ہو وہاں سڑکوں پر بھی انصاف نہیں ملتا سوائے آنسو گیس کی شیلنگ اور گرفتاریوں کے اور ہماری پولیس بڑے فخر سے اپنے ان محسنوں کو پکڑ پکڑ حکمرانوں کی نظر میں اپنا وقر بلند کر رہی ہے۔