ہر سال بجٹ کی گہما گہمی ہوتی ہے، یہ بجٹ کیا ہے اور کن کے لئے، کون لوگ مستفید ہوتے ہیں کون لوگ ہیں جو اُس کا بشدت انتظار کرتے ہیں، حکومت کو، تاجر و صنعتکار، سرکاری ملازم اور رعایا (عرف عام میں عوام کہا جاتا ہے ) یہ لوگ کیوں منتظر ہوتے ہیں یہ اگے چل کر اِس کا زکر ہو گا مگر پہلے، وزیر خزانے کی بجٹ سے پہلے سابقہ دو حکومتوں کے ادوار پر مختصر جامع روشنی ڈالی انہوں نے کہا گزشتہ پی پی پی دور میں شرح نمو ٣ فیصد سے کم رہی، جبکہ آبادی میں 2 فیصد اضافہ ہوأ،ڈالر 62 ،روپئے سے 100، روپئے تک پہنچا، آئی ایم ایف سے بڑے پیمانے پر قرضے لینے کے باوجودزر مبادلہ کے زخائر 11,1، ارب ڈالر سے کم ہو کر 6.3، ارب رہ گئے پانچ سال پہلے گردشی قرضے نہ ہونے کے برابر تھے۔
پانچ سال میں 1481 ارب ر وپئے کی پاور سیکٹر میں سبسیڈی ادا کرنے کے باوجود اس وقت 500 ارب کا سرکلر ڈیٹ موجود ہے جس نے ہمارے بجلی کے نظام اور سرکاری مالیات کو تباہ و برباد کر دیا بجٹ خسارہ اوسطاً7 فیصد رہا جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، 31 مارچ 2008 کو غیر ملکی قرضے 5602 ارب روپئے تھے جو بڑھ کر 14284، ارب تک پہنچ گئے اس طرح قرضوں میں 255 فیصد اضافہ ہوا، مزید کہا 1947 سے 30 جون 1999 تک ملک کا مجموعی قرضہ تقریباً 300 ارب تھا مندرجہ بالا اعداد و شمار اُس صداقت کا اعتراف ہے۔
کہ جمہوری دور کی بجائے وہ دور جسے آمرانہ دور کہا جاتا ملک کی معاشی ترقی اور امن و امان کے حوالے سے جمہوری دور سے بہتر تھا جمہوری دور میں لوٹ مار کے سوا کچھ نہیں ہوأ اور ملک معاشی طور پر کئی برس پیچھے چلا گیا ہے پاکستان کے مظلوم اور پسے ہوئے طبقات کو ان کے حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی سز امہنگائی، بے روزگاری، بد ترین لوڈ شیڈنگ کی، صورت میں دی جارہی ہے، بعض لوگ حسب روائت اسے لفظوں کا گورکھ دھندہ کہہ کر مسترد کر رہے ہیں۔
اور یہ سچ بھی ہے وزیر خزانہ کا کہنا کہ عوام پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا گیا، میاں شہباز شریف نے بھی یہی فرمایا کہ غریب اور کم وسیلہ طبقات پر ایک پائی کا بھی بوجھ نہیں ڈالاگیا، پنجاب کا بجٹ ترقی و خوشحالی کا نیا دور لیکر آئیگا۔ بڑی تلاش و جستجو کے پتہ نہیں وہ خوش نصیب عوام، یا بے وسیلہ طبقات کہاں ہیں جن پر بوجھ نہیں ڈالا گیا، مگر دو پائے کیڑے مکوڑے جو نان شبینہ کے لئے سر گرداں ہیں وہ بھلا کیا سمجھیں گے کہ یہ عوام نہیں اب بجٹ 2013 پیش ہو چکا ہے۔
Budget
اور بحث جاری ہے، حکومت کو بھی بجٹ کا انتظار ہوتا کہ اصے کارو بار حکومت چلانے کے لئے بہر حال روپئے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، دوسرے تاجر کو بھی انتظار ہوتا ہے کہ ٹیکس لگائے جائیں گے قیمتوں میں اضافہ ہو گا، جو اجناس اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء اُس نے زخیرہ کی ہوتی ہیں ان سے کئی گنا کمائی حاصل کرے گا تیسرے تنخواہ دار طبقے کو انتظار ہوتا ہے کہ اجرتوں میں اضافہ ہو گا اور چوتھا وہ طبقہ رعایا جو چلتے پھرتے دو پائے کیڑے مکوڑے، جو نا تو تنخواہ دار ملازم ہیں۔
اور نہ کوئی باقائدہ اجرت ہے اُسے بھی اُمید ہوتی ہے کہ شائد آٹے دال کی قیمتوں میں کوئی کمی ہو اُس کی زندگی کا محور تو روزینہ اجرت ہے اگر دیہاڑی لگ گئی تو دو کلو آٹا مل جائے گاورنہ ہوأ کھا کر سوئیں گے مگر اِس جمہوری دورے کے پہلے بجٹ نے اِس طبقے کو شدید مایوس کیا، کہ بجٹ تقریر ختم ہوئی اُس کے کشکول میں پڑا 100 کا نوٹ، اِس کرشمہ ساز رات کے گزرتے ہی صبح کو پچاس رہ گئے اور پچاس لفظوں کی ہیرا پھیری سے نصف حکومت نے نکال لئے اور نصف تاجر کی تجوری میں چلے گئے۔
اور وہ ہاتھ ملتا رہ گیا وہ تو کوئی احتجاج بھی نہیں کر سکتا کہ اُس کی کوئی آواز ہی نہیں کہ حکومت میں،اور کسی اہم فور م جیسے، قومی اسمبلی اور سینٹ میںبھی اُس کا کوئی نمائندہ نہیں جو اُس کی بھوک سے آگاہ ہو حالانکہ اسمبلیوں میں حکومت ،اور دیگر اہم اداروں میں بھی بھوکے لوگ موجود ہیں مگر اُن کی بھوک اور اس کی بھوک میں فرق حسب روائت بجٹ میں لفظ گا اور گے بکثرت استعمال کیا گیا ہے، میڈیا کے روائتی ٹاک شوز میں نامی گرامی لوگ مدعو کئے جاتے ہیں۔
مگر وہ بھی تو محض اپنی علمیت و دانش کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں، کبھی رعایا کے اِس مظلوم و مفلوج طبقہ کو زیر بحث نہیں لایا جاتا کہ اِن کے شب و روز کیسے گزرتے ہیں اور کہ اِس خطہ سے جِسے پاکستان کہا جاتا ہے سے اِن کا کیا اور کیسا تعلق ہے، اور کیا اِس سرزمین کے قدرتی وسائل میں سے ان کا بھی کوئی حصہ ہے ،یا کہ یہ طبقہ صرف ووٹدی نے اور اپنے حاکموں کے لئے تالیا ں بجانے کے لئے پیدا ہوأ ہے، یا پھر اِن کا خالق و مالک کوئی اور ہے۔
Purchase of vehicles
پرنٹ میڈیا میں بھی مجھ جیسے لوگ صفحات سیاہ کر رہے ہیں جن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہاں اس طبقہ کے لئے مگرمچھ کے آنسو ضرور بہائے جاتے ہیں، ایسے بیانات کی زندگی محض ایک دن کی دوسرے دن بھولی بسری داستان، ایک طرف تو وزارتوں میں نئی گاڑیوں کی خرید پر پابندی لگائی ہے جو مناسب ہے کہ یہ لوگ وزیر بن کر فوراً ہی لگژری گاڑیوں کی ڈیمانڈ کرتے، جبکہ پہلے سے موجود گاڑیوں میں بیٹھنا کیا زاتی طور پر ہر دو چار سال بعد گاڑی کباڑیئے کو دے دیتے ہیں۔
شائد ایسا نہیں، وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات میں کمی کی گئی ہے ایسے اقدامات اپنی جگہ احسن مگر سوال یہ ہے کہ رعایا کو بجٹ نے کیا سہولیات دیں، جس کے مٹکے میں شام کے لئے چٹکی بھر آٹا نہیں اُس سے تو نادیدہ ٹیکس وصول کر لئے جاتے ہیں مگر 2007 میں جب گندم کی سرکاری قیمت خرید تین سو روپئے من تھی تب بھی جاگیر دار کو مراعات حاصل تھیں اور اب جب بارہ سو روپئے من بیچ رہے ہیں تب بھی مراعات حاصل ہیں۔
اور غریب سے قربانی یعنی اُس کے ہاتھ میں پکڑا روٹی کا ٹکڑا بھی طلب کیا جا رہا ہے کہ اے غریب تجھے جینے کی ضرورت کیا ہے یہ سیاسی لیڈر تو صرف اقتدار ،اور پر تعیش زندگی کے لئے صبح و شام سیاست کرتے ہیںاور یہ سیاست ہی اُن کی زندگی ہے، مگر جب میں سفید جبہ سر پر عمامہ باندھے لوگوں کو بلند و بانگ دعوے کرتے سنتا اور دیکھتا ہوں تو دکھ ہوتا ہے۔
کیا یہی خالق و مالک کاانصا ف و مساوات ہے، کہ ایک عالیشان محل، مگر مکیں نہیں اور جہاں مکیں ہے وہاں گھر نہیں،اب اسمبلی فورم میںبجٹ پر دھوأں دھار تقاریر ہونگی اور آخرش اِسے منظور کر لیا جائے گا اور کشکول تھامے پِسے ہوئے طبقات ،جن کا شمار کروڑوں میں ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔