تحریر: سیّد عارف سعید بُاری غریب عوام کی خیر خواہی اور وطن عزیز کو ”ایشین ٹائیگر” بنانے کی دعویدارحکومت کے ذہین و فطین وزیر خزانہ سینٹر اسحاق ڈار نے 10کھرب روپے کا خسارے کا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے ساری قوم کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ حکومت نے اپنی کامیاب حکمت عملی سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے ۔بجٹ کیا ہے اور اس کا کیا مقصدہوتا ہے۔؟ اس بارے عام آدمی کو کسی قسم کا ادراک نہیں ہوتا کیونکہ ملک کی اکثریت ناخواندہ ہے اور جو تعلیم یافتہ ہیں وہ بھی بجٹ کی شعبدہ بازیوں کو سمجھنے سے قاصرہوتے ہیں۔ ۔ بجٹ روایتی طور پر اعدا دو شمار کا ایک ایسا گورکھ دھندہ ہی ہوتا ہے کہ جیسے سمجھنے کیلئے قوم کو صدیاں درکار ہیں ۔ البتہ ہمیشہ کی طرح خیر خواہان ِ حکومت بجٹ کو عوام دوست ، متوازن اور شاندار قرار دینے کیلئے زمین آسمان کے قلابے ملانے میں مصروف ہو گئے ہیں جبکہ اپوزیشن ماضی کی طرح بجٹ پر مسلسل سخت ترین الفاظ میں تنقید کر رہی ہے۔
بجٹ پراظہار خیال کرنے والے اس کی اس اصل روح کو بھی سمجھنے سے قاصر ہیں مگر اسے اچھا یا بُرا کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ بجٹ کو کاروبار مملکت چلانے کیلئے بڑی بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ایک بات بالکل واضح ہے کہ بجٹ میں لگائے جانے والے ٹیکسوں کا بوجھ کسی نہ کسی شکل میں” غریب عوام” پر ہی پڑتا ہے ، کیونکہ کسی بھی مّد میں لگنے والا ٹیکس ہر حال میںغریب عوام کو ہی ادا کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن ہر مرتبہ حکومت کے ذمہ داران یہی دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم نے غریبوں پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا ۔ امریکی ڈرون حملوں میں تو اکثر لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔ لیکن بجٹ کی صورت میں ڈرون اٹیک لوگوں کو جینے دیتا ہے اور نہ ہی مرنے دیتا ہے ۔قوم حکمرانوں کی عیاشیوں ، دانشمندانہ فیصلوں اور آئی ایم ایف سمیت دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے زیر نگیں بننے والے بجٹ سے سارا سال ”سولی” پر لٹکی رہتی ہے ۔ وزیر خزانہ سمیت اعدادوشمار کا جنتر منتر پڑھنے والے آئی ایم ایف سے بھاری مراعات حاصل کرکے اپنا اور اپنے خاندانوں کی عیاشیوں کا سامان کر لیتے ہیں ۔جبکہ غریب عوام آئی ایم ایف کی طرف سے ملنے والے قرض کے باعث زندہ درگور ہو کر رہ جاتے ہیں۔
Tax
حکومت نے بجٹ میںکمال ہوشیاری سے سیمنٹ ، دودھ ، سٹیشنری اور مشروبات وغیرہ پر نئے ٹیکسز عائد کر دئیے ہیں ،دنیا کے پیشتر ممالک میں بجٹ صرف سال میں ایک بار آتا ہے اور حکومتیں اپنے عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف کو یقینی بناتی ہیں ۔ کسی بھی ملک میں ”منی بجٹ” کا کوئی تصور موجود نہیں اور نہ ہی اشیائے ضروریہ کے نرخ باربار بڑھتے ہیں ۔ پاکستان کا تو باوا آدم ہی نرالاہے ۔۔یہاں بجٹ آنے سے پہلے ہی ذخیرہ اندوزی شروع ہوجاتی ہے ، قیمتوں میں از خود اضافہ کر دیا جاتا ہے۔
اس معاملے میں ملک بھر میں موجود ملٹی نیشنل کمپنیاں جو سیاسی جماعتوں کے نامی گرامی قائدین کی ذاتی ملکیت بھی ہیں وہ بھی اکثرو بیشتر اپنی مصنوعات کی نرح بڑھا دیتی ہیں مگر کوئی مائی کا لال ایساابھی پیدا نہیں ہوا جو ان کمپنیوں کی لوٹ مار روکنے کی جرات کر سکے ۔ بجٹ سے پہلے ہی معروف برانڈ کے دودھ ملک پیک کے نرخ میں 5روپے لیٹراضافہ کیا گیا ۔ اسی طرح شیور مرغی کا نرخ جو چند ماہ پہلے تک 90 روپے کلو تھا ۔ رفتہ رفتہ200روپے کلو تک پہنچا دیا گیاتھا جیسے بعد ازاں 170روپے کلو کرکے لوگوں پر احسان کیا گیا ۔ دیسی مرغی کا ریٹ 680روپے کلو ، چھوٹا گوشت800روپے کلو جبکہ موٹا گوشت 400روپے کلو فروخت ہو رہا ہے ۔دالوں کی قیمتیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔پھلوں اور سبزیوں کے نرخ بھی آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ادویات کی قیمتوں میں بھی بجٹ سے پہلے ہی 20سے 25فیصد تک اضافہ کیا جا چکا ہے۔اور اس لوٹ مار کو روکنے والا کوئی موجود نہیں۔
Inflation
بدقسمتی سے حکومت مہنگائی کی تمام تر ذمہ داری تاجروں پر ڈال کر خود کو تمام ذمہ داریوں سے بری الذمہ سمجھ لیتی ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت کے زیر انتظام چلنے والے اداروں اور یوٹیلٹی سروسز سمیت انسانی بنیادی ضروریات فراہم کرنے والے ادارے بھی مختلف اقسام کے ٹیکس عوام سے زبردستی وصول کر رہے ہیں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عام آدمی صرف بجلی اور گیس کی مّد میں ان دونوں نعمتوں کی اصل قیمت سے 2سے 5گنازیادہ ٹیکس ادا کر رہا ہے جس کا بظاہر کوئی جواز نہیں بنتا ۔ اربوں روپے کے ٹیکس بجلی ، گیس اورموبائل فون سروسز کے استعمال پر وصول کئے جا رہے ہیں ۔اس کے باوجود حکومت کا خسارہ پورانہیں ہوتا۔
اگر کوئی شریف شہری اپنی معاشی مشکلات کے پیش نظر کسی بھی محکمے کے ذمہ دار فرد کے سامنے اپنی معاشی مجبوری ظاہر کرے تو جواب ملتا ہے کہ جناب! یہ ہمارا درد سر نہیں ۔ آپ چوری کریں ، ڈاکہ ماریں یا اپنی عزتوں کا نیلام کریں ، بل تو آپ کو ادا کرنا ہی ہوگا ، ورنہ بجلی بند۔گیس بند ۔۔فون بند۔۔پانی بند۔۔مکان سیل ۔۔۔اور اس پر طرہٰ یہ کہ متعلقہ محکمے کا افسر یا عام ملازم اس شہری کی تذلیل کرنے میں ذرا سی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا جس نے اپنی ساری زندگی میں لاکھوں ، کروڑوں روپے ٹیکسوں کی مّد میں قومی خزانے میں جمع کروائے ہو تے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کی اکثریتی عوام حکومت کی طرح خود بھی ایک نا ختم ہونے والے معاشی بحران سے دوچار ہیںاور اُن کے مسائل کو حل کرنے والا کوئی نہیں ۔ چاہئے وہ معاشی پریشانیوں کے باعث خودکشی کر لے ۔
پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں بیروزگار اور پریشان حال شہری کو روزگار دلانے والا اور اُس کی پریشانیوں کا ازالہ کرنے والا کوئی ایک بھی محکمہ یا فرد نہیں ہے لیکن شہریوںکی تذلیل کرنے کیلئے متعدد محکمے موجود ہیں ۔ سرکاری ملازم جیسے عوام کا خادم ہونا چاہئے وہ رعایا کو اپنا زرخرید غلام تصور کرتا ہے ۔ قوم کے خون پسینے کی کمائی سے 10سے 30ہزار روپے تنخواہ پانے والا افسر یا عام ملازم سالانہ لاکھوں روپے ٹیکس ادا کرنے والے شریف شہری کو اُس کے گھر کی دیلیز یا اُس کی دکان پر آکر ذلیل و خوار کرکے چلا جاتاہے لیکن متاثرہ شخص کی داد رسی کرنے والا کہیں موجود نہیں ہوتا ۔یہ صورتحال لوگوں میں نفرتوں کے بیج بو رہی ہے ۔ ملک تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے جبکہ حکمران عالمی مالیاتی اداروں کی خوشنودی کیلئے ملک کو بدحالی کی ایسی دلدل میں دھکیلنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں کہ جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت لوگوں کو بجٹ کے اعداد وشمار سے مستقبل کے سہانے خواب دکھانے کی پالیسی ترک کرکے ملکی معیشت کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے ساتھ ساتھ قوم کوعالمی مالیاتی اداروں کی مستقل غلامی سے نجات دلانے کیلئے کوئی ٹھوس اور واضح حکمت عملی اپنائے ۔ کیونکہ اگر یہی صورتحال رہی تو ملک کو” ایشین ٹائیگر”بنانے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا ۔