جہاں تک میرا حافظہ میرا ساتھ دیتا ہے یہ کالم شوکت عزیز یا اس کے بعد کی کسی حکومت کے بجٹ پر لکھا گیا تھا لیکن مجھے یقین ہے کہ شاید اگلی کسی حکومت کے بجٹ کے موقع پر بھی اہل ِوطن کو مستفید کر سکے گا۔میرے سامنے وئہ مکار شخص بیٹھا تھا جو اپنے اپ کو افسردہ اور غم زدہ ظاہر کرنے کی اداکاری کرکے فاتحہ خوانی کے لیئے آنے والوں کی ہمدردیاں حاصل کر رہا تھا۔آنے والے افسوس کا اظہار اور صبر کی تلقین کر رہے تھے لیکن میں ایسا نہ کرسکا۔میرے نزدیک یہ شخص ظالم ہی نہیں مجرم بھی تھا۔جس نے اپنی جواں سالہ بیٹی کے لیئے خودکشی کی راہ ہموار کی تھی۔جو اسے بچا سکتا تھا۔اس کی خواہش پوری کر سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔اس جرم میں اس کی ماں بھی شامل تھی جو اپنی بیٹی کے ہاتھوں پہ مہندی لگانے کی ارزو پوری کرنے سے پہلے اسے موت کے منہ میں جانے سے نہ روک سکی۔
میرا دل بھی دکھی تھا۔میں بھی اپنے اپ کو مجرم محسوس کر رہا تھا۔میرا اس سے کوئی رشتہ تو نہیں تھا لیکن وئہ میرے علاقے کی بچی تھی۔عید پرکپڑے کے نئے جوڑے کی خواہش پوری نہ ہونے پر دلبرداشتہ ہوکر خود کشی کر لینا کم المیہ نہ تھا۔ زندگی ہارنے کا فیصلہ بہت مشکل ہوتا ہے۔ خود کشی اور خود سوزی انتہائی اقدام ہوتا ہے۔ایسے ماحول میں میرے لیئے وہاں بیٹھنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ میں شدید غم اور غصے میں اس کے باپ کا گریبان پکڑ کر کہنا چاہ رہا تھا کہ تم ظالم ہو، قاتل ہو،مجرم ہو۔کپڑے کے ایک جوڑے کی خاطر تم نے اپنی بیٹی کی زندگی گل کردی۔میں اسے کہنا چاہتا تھا کہ تم کیسے باپ ہو جو بیٹی کی معمولی سی خواہش اور خوشی کی خاطرچار پانچ سو کا بندوباست نہ کر سکے۔
میں اسے بتانا چاہتا تھا کہ اب حالات بدل چکے ہیں۔جب ملک کا وزیر اعظم کہہ رہا ہو کہ اقصادی صورتحال بہتر ہے ۔ترقی کے ثمرات نچلی سطح پر منتقل ہو رہے ہیں۔لیکن تم نہ جانے کس سازشی گروہ کے آلہ کار بن کر اس ترقی کی نفی کر رہے ہو۔اسے جھٹلا رہے ہو تم جھوٹے اور مکار ہو۔تمہیں خبر نہیں کہ پاکستان تیز ترین ترقی کرنے والے١١ ممالک میں شامل ہو چکا ہے پھر بھی سر عام کہہ رہے ہو کہ تمھارے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔اب تو بے روزگاری کی شرح بھی٣۔٨ فیصد سے کم ہوکر٢۔٦ فیصد رہ گئی ہے۔حکومت کی ٹھوس اقتصادی پالیسیوں کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔افرادی قوت کے شعبے میں ترقی کا رجحان برقرار ہے۔
معیشت کے تمام شعبے ترقی کی طرف گامزن ہیںجی ڈی پی میں اضافے کا ہدف ٧ فیصد مقرر ہوا تھا جو ٢۔٧ فیصد رہا۔فصلوں کی پیداوار میں ٦ فیصد اضافہ ہوا ہے۔فی کس امدن پچھلے سال٣٣۔٨ڈالر تھی جو بڑھ کر ٢٥۔٩ ڈالر ہوگئی ہے اس کے باوجود حالات کا رونا رو رہے ہو۔حکومت کو ایسے لوگوں کو قانونی گرفت میں لینا چاہیے جو ترقی کی اس تیز ترین رفتار اور اعدادو شمار کو جھٹلاتے پھر رہے ہیں۔منفی پراپوگنڈے کی راہ ہموار کرکے حکومت سے نفرت کا جواز پیدا کرکے اپوزیشن کے نادانوں کو موقع فراہم کر رہے ہیں۔
میں اس سے پوچھنا چا رہا تھا کہ ملک کی ہر گلی میں فلاحی تنظیموں کا بسیرا ہے۔جن کے خلوص سے مخلوق فیض یاب ہو رہی ہے۔جن کے پاس ہر کسی کے غم کی فائیل موجود ہوتی ہے ا ور ہر دکھ کا فوٹو ان کی البم میں سجا ہوتا ہے۔ان کی فائیلوں میں اعداد و شمار کے خزانے ہوتے ہیں۔ان کی رنگین کتابوں میں سنہری کارناموں کے اچھوتے ریکارڈ ہوتے ہیں۔تم کیسے شخص ہو جو این جی اوز کے میلے میں غربت کے خاتمے کا کوئی رقص بھی نہیں دیکھ سے جذباتی کیفیت آہستہ آہستہ کم ہوتی گئی غم کا بوجھ کم ہوگیا۔فاتح خوانی کے لیئے ائے ہوئے لوگ واپس جا چکے تھے بد نصیب لڑکی کا غم زدہ باپ اور میں بیٹھے تھے۔ وئہ کہنے لگامیں واقعی مجرم ہوں میں نے اسے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن مجھے وئہ وسائل دستیاب نہ ہو سکے جن سے میں کپڑے کا نیا جوڑا خرید سکتا۔
میں تو اتنا بد نصیب ہوں کہ اپنی بیٹی کو کفن کا تحفہ بھی نہ دے سکا۔ لیکن وئہ بڑی عظیم اور دور اندیش بیٹی تھی۔اسے احساس ہوگیا تھا کہ اس کے والدین ایک جوڑے کے لیئے بے بس ہو گئے ہیں لہذا ان سے جہیز کا مشکل ٹیسٹ نہ لیا جائے۔ شاید اسے اس بات کا ادراک ہوگیا تھا کہ حالات کی سنگینی بہت جلد ہماری خوشحالی کا بھرم توڑنے والی ہے بہتر ہے کسی اور جہان میں جیا جائے۔۔وہ کہنے لگا کہ کاش کوئی ایسا سبب ہو جاتا کہ ہم انسان نما مخلوق کے بچوں کو آئیندہ کے لیئے کپڑوں،جوتوں،کھلونوںکے خریدنے اورآئیس کریم چکھنے کی خواہش پوری نہ ہونے پر کسی نہ کسی طرح خودکشیوں سے روکا جا سکتا۔
میرے پاس کوئی راہ فرار نہیں تھا وہاں سے اٹھتے ہوئے اس غم زدہ باپ کے کندھے پر مجرمانہ دلاسے کا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ اپ فکر نہ کریں؟ وزارت خزانہ کے ڈاریکٹر جنرل میڈیا نے اشتہار شائع کیا ہے جس میں اہلِ وطن سے پوچھا گیا ہے کہ(اپ بجٹ میں کیا چاہتے ہیں)؟میں اپ کا دکھ ان تک پہنچائوں گا تاکہ وئہ ایسی اجتماعی معاشی فضا قائم کر سکیں جس سے اپ کے بچے خودکشیوں کی بجائے اپنی معصومانہ خواہشوں کو پورا کر سکیں گے۔ دورِ حکومت شوکت عزیز کا ہو یا عہدِ تبدیلی ہو کیا فرق پڑتا ہے۔پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے؟