نیا بجٹ مبارک

Budget

Budget

تحریر : ایم سرور صدیقی

اہلیان ِ وطن کو مبارک ہو۔ نیا بجٹ آ گیا ہے عام آدمی کودلی مبارک بادپیش کرنے کو دل چاہتا ہے کہ 300 یا اس سے زائد بجلی کے یونٹ استعمال کرنے والوںکو خوشحال قراردیدیا گیا۔ اب تو ان کا شمار امیر لوگوںمیں ہونے لگے گا یہ خوشی کی بات نہیں ہے کیا؟ صارف ترقی کرے نہ کرے اس کا بجلی کا بل اب ضرور ترقی کرے گا 2019ـ20کے 8238.1 بلین روپے پرمشتمل وفاقی بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمارکردی گئی ہے جبکہ کم سے کم اجرت 17500مقرر، تنخواہ دار اورغیر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس میں اضافہ، سیمنٹ، سگریٹ، چینی، خوردنی تیل، گھی، کولڈڈرنکس ،دودھ ،کریم ، خشک دودھ ، زیورات ، ایل این جی ،چکن، مٹن، بیف اور مچھلی، سونا، چاندی، ہیرے، گاڑیاں مہنگی کردی گئیں ،کاغذ،موبائل سستے ، ریسٹورنٹ اور بیکری کی اشیاء پر سیلز ٹیکس میں کمی ، صنعتی اور بر آمدی شعبے کیلئے بجلی اور گیس سستی ، نان فائلر زکے لئے 50لاکھ روپے سے زائد کی جائیداد کی خریداری پر پابندی ختم کردی گئی۔ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5550 ارب رکھا گیا ہے امسال پیش کیا جانے والا بجٹ خسارے کا بجٹ بتایا گیاہے خود وزیر ِ مملکت ِ خزانہ نے اعتراف کیاہے کہ ٹیکس وصولی کا ہدف پورا نہیں کر سکے اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اب پھر عوام کی شامت آنے والی ہے بجٹ کا خسارا اورٹیکس کا ہدف پورا کرنے کیلئے انشاء اللہ عوام پر سائٹیفک طریقے سے ٹیکس لگانے کیلئے نئی نئی سکیمیں تیار کی جائیں گی یقینا بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں اضافہ کردیا جائے گاہر حکومت اسی تیز بہدف نسخے کو بلا دریغ استعمال کرنے سے ذرا نہیں چوکتی خذشہ ہے کہ بچی کھچی چیزوںپر بھی ٹیکس لگادیا جائے گا یعنی ٹیکس ہی ٹیکس ۔۔۔اور ہر چیز مہنگی۔۔۔ حالات کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا موجودہ حکومت کے 9ماہ کے دوران ہوشربا مہنگائی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں خود وزیر ِ اعظم عمران خان نے بھی تسلیم کیاہے کہ غربت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی کے بلوںمیں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی عام آدمی کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔

کوئی ہے اس سوال کا جواب ۔ کسی کے پاس؟؟؟ایک دور تھا جب بجٹ پیش کیا جاتا تو سال بھر قیمتوںمیں استحکام رہتا انتظامیہ اور صوبائی و وفاقی حکومتیں سختی سے گراں فروشوں کے خلاف ایکشن لینا اپنا فرض مجھتی تھیں اب تو حکومت بجٹ کا تو تکلف ہی کرتی ہے ورنہ پتہ ہی نہیں چلتا کب بجٹ آیا کب گیا؟نئے مالی سال کا آغاہو یا معمول کے حالات گرانی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے حسب ِ معمول اس مرتبہ پھر کہا جارہاہے کہ سب اچھا ہے عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا پاکستان کی ہر حکومت ہر سال غریب عوام کو خوش کرنے کیلئے ایسے ہی دعوے، ایسے ہی وعدے کرتی ہے ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وفاقی بجٹ آئی ایم ایف کی ٹیم نے بنایا ہے کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں یہ سب سے زیادہ خسارے والا بجٹ ہے اس بجٹ میں 700 ارب روپے کے مزید ٹیکسز لگائے گئے ہیں جس کے نتیجہ میں قیامت خیز مہنگائی ہوگی اور عام آدمی اس بوجھ تلے دب کرچوں بھی نہیں کرسکے گا اسی لئے کہاجارہاہے کہ حکومت نے عوام دوست نہیں آئی ایم ایف دوست بجٹ پیش کیا جو عوام دشمنی پر مبنی ہے، نئے ٹیکسوں سے مہنگائی کا سونامی آئے گا۔ بیروزگاری بڑھے گی اس لحاظ سے حکومت عوام سے کئے گئے وعدوں میں سے ایک بھی وعدے پر پورے نہیں اتر سکی۔ خوفناک بات یہ ہے کہ بجٹ کی تیاری میں حکومت، کابینہ، پارلیمنٹ کا کوئی کردار نہیں۔

یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ بدترین معاشی بحران میں پاکستان کا وزیر خزانہ بھی نہیں ہے اسی لئے اپوزیشن ملسل کہہ رہی ہے وفاقی بجٹ آئی ایم ایف کی ٹیم نے تیار کیا ہو اور خفیہ معاہدوں کی بدترین شرائط کی روشنی میں میزانیہ تیار ہوا اس میں عوام کے لئے کچھ نہیں ہے کچھ سیاستدانوں کو یقین ہے کہ بجٹ دستاویز آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن ہے، جب تک غیر ملکی آقائوں کے اشاروں پر بجٹ بنتے رہیں گے، عام آدمی کو ریلیف نہیں مل سکتا وفاقی بجٹ عوام دشمن ہے۔ جس کے نتیجے میں بدترین مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان آئے گا۔ اس حکومت نے عوام کو افراط زر اور معاشی زوال کے چنگل میں پھنسا دیا ہے۔ کچن آئٹمز کو مہنگا کرنا ظلم ہے ۔جناب! پاکستان جیسے ملک میں بجٹ کو کوئی خوفناک چیز سمجھا جاتاہے یہ جب بھی آتاہے ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان امڈ آتاہے اب تو بجٹ اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری کا نام ہے اکثر وزیر ِ خرانہ جب بجٹ پیش کررہے ہوتے ہیں انہیں خود اندازہ نہیں ہوتاوہ کیا کہہ رہے ہیں۔۔جب سے حکومت نے اداروں اور محکموں کو خود مختاربنایا ہے انہیں شتربے مہارآزادی مل کئی ہے ان کا بااثر لوگوںپر تو کوئی زور نہیں چلتا لیکن انہوں نے غریبوں کا جینا ضرورمشکل کر دیا ہے وہ سارا سال مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے سروسز چارجز بڑھاتے رہتے ہیں۔

مختلف حیلوں بہانوں سے عوام سے پیسے بٹورے جا تے ہیں اور کوئی پوچھنے والا تک نہیں ،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور بجلی کے نرخ تو ایک ماہ میں دو دو بار بڑھا دیئے جاتے ہیں عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت ،بڑے بڑے سیاستدانوں حتی کہ اپوزیشن رہنمائوں نے بھی عوام کی طرف آنکھیں بند کرلی ہیں۔حکمران عوامی مسائل اور مشکلات سے لاتعلق ہو چکے ہیں جب بھی بجٹ آتا ہے ناقدین، اپوزیشن اور حکومت مخالف رہنمائوںکو سستی شہرت حاصل کرنے ، دل کا غبار نکالنے یا بیان بازی کا ایک بہانہ میسر آ جاتاہے بجٹ کے حقیقی خدو خال پر کوئی غور کرنا پسند ہی نہیں کرتا اس ملک میں ہر روز منی بجٹ آتاہے ،ہرروز چیزوں کے نئے ریٹ عوام کا منہ چڑارہے ہوتے ہیں بنیادی طورپراس کی ذمہ دار حکومت ہے جس کی کسی بھی معاملہ پر گرپ نہیںہے یہی وجہ ہے کہ اب چھوٹے چھوٹے گروپ بھی حکومتی رٹ کیلئے چیلنج بن گئے ہیں اس ماحول میں بجٹ کا رونا کوئی کب تک سنتا رہے ،جب سے حکومت نے ہر ماہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقررکرنے کی نئی حکمت ِ عملی وضح کی ہے ہر مہینے مہنگائی کی نئی لہر جنم لیتی ہے اوراس کی آڑ میں گراں فروشوںکو چیزیں مہنگی کرنے سے کون روک سکتا ہے؟ روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والی مہنگائی اور پے در پے منی بجٹ سے گھر گھر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں ان حالات میں حکومت کی طفل تسلیاں کہ عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا دعوے کو حقیقت بنانے کیلئے کچھ نا گزیر اقدامات کرنا پڑتے ہیں کچھ بے رحم فیصلے بھی۔

اس کیلئے ماحول کو سازگار بنانا بھی حکومتی ذمہ داری ہے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والی پالیسی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی بجٹ کی اہمیت اور افادیت تواس صورت ہی ممکن ہے کہ حکومت بالخصوص کھانے پینے اشیائ،ہر قسم کی یوٹیلٹی سروسز،ادویات کی قیمتیں الغرض ہر چیز کے نرخوں کا تعین ایک سال کیلئے مقرر کرے،کسی ادارے، محکمے یا نیشنل،ملٹی نیشنل کمپنی کو ایک سال سے پہلے قیمت بڑھانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے اس پر سختی سے عمل کروایا جائے تو نہ صرف ملکی معیشت مستحکم ہونے میں مدد ملے گی بلکہ غریب عوام بھی سکھ کا سانس لے گی ورنہ اس سے بہتر یہ ہے کہ حکومت ہر سال بجٹ پیش کرنے کا تکلف ہی نہ کرے تو وزیر ِ خرانہ کئی کڑوے کسیلے سوالات سے بچ سکتے ہیں عوام ہرسال حکومت سے امید کرتے ہیں کہ اب کی بار بجٹ میں اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری نہیں ہوگی غریبوںکی فلاح کیلئے حقیقی اقدامات کئے جائیں گے۔۔یہ ایسا بجٹ ثابت ہوگاجس سے عام آدمی کو ریلیف ملے گا ہم دعا گو ہیں کہ اللہ کرے ایسا ہی ہو حکمرانوں سے کوئی امید تو نہیں لیکن اللہ کے حضور دعا مانگنے میں ہرج کیاہے ۔ ایک بات ہم کہے بغیر نہیں رہ سکتے ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور ٹیکس چوری کا خاتمہ کئے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں جناب! عمران خان صاحب ہمیں آپ کا پیش کردہ بجٹ قبول ہے لیکن ایک وعدہ کریں کہ اس کے بعد سال بھر کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا تو ہم خوشی سے نہال ہو جائیں گے۔

M Sarwar Siddiqui

M Sarwar Siddiqui

تحریر : ایم سرور صدیقی