آئندہ بجٹ امیدیں یا پھر نئی تمہیدیں

Budget

Budget

تحریر : محمد جواد خان
سرکاری و نیم سرکاری دفاتر میں بیٹھے اعلیٰ افسران سے لے کر کلاس فورتک، چوراہے میں ریڑھی لگائے ریڑھی بان سے لے کر کاشت کار و زمیندار تک، مزدور سے لے کر فیکٹری مالکان تک، حتی کے ہر عام و خاص اور ہر اعلیٰ و ادنی کو ہر سال ماہ ِ جون کا امید و قیاس کے ساتھ بڑی بے صبری کے ساتھ انتظار رہتا ہے کہ شاید اب کے سال ان کو کوئی اچھی نوید سنائی جائے جس سے ان کے حالات میں بہتری آئے۔

ملک ِ خداداد ِ پاکستان کی عوام کی اگر رائے لی جائے تو مزدور و ملازم پیشہ افراد اور سرمایا دار دونوں الگ الگ پارٹیوں کی تعریف کرتے ہوئے دو ٹولیوں میں نظر آتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں ہونے والے بجٹ ملازمین کے لیے بہترین بجٹ ثابت ہوتے ہیں اور ملازمین اس اعتبار سے پارٹی کی تعریفیں کرتے ہیں اور اس پارٹی کی حمایت کرتے ہیں مگر لگے ہاتھوں اگر سرمایا داروں یا فیکٹری مالکان کی ٹولی کا سروے کیا جائے تو وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حمایت میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

Inflation

Inflation

بجٹ میں اگرچہ جو ہلکی سے ہلکی مہنگائی کا تناسب بھی رکھا جائے تو اس کا اطلاق جلد از جلد اور ہنگامی بنیادوں پر اس قدر کر دیا جاتا ہے کہ عام آدمی کی تنخواہ میں ہونے والے اضافے سے دو گناہ زیادہ کر دی جاتی ہے جس کو دیکھتے اور بھانپتے ہوئے عام آدمی بجٹ کے مہینے کو قصائیوں کے نئے نرخوں کا مہینہ کہتے ہیں کہ اس میں مزید مہنگائی ہو نے والی ہے۔ اور وہ اس مہینے کے خوف و خطر سے انتہائی گھبرائے ہوتے ہیں کیونکہ اس ماہ میں اکثر گرمی بھی اپنے جوبن دیکھا رہی ہوتی ہے اور اوپر سے بجٹ کی ہونے والی تقریب ماحول میں زیادہ گرمی کی کیفیات پیدا کر دیتی ہے۔

ہم لوگ ایک متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے عام پاکستانی ہیں، بمشکل دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر کے اپنے رب خداو ند عزوجل کا شکر کرتے ہیں ، ہم جیسے غریب لوگوں کے خواب بھی چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں جو کہ اعلیٰ حکام کی نظر میں تو رائی کے دانے کے برابر ہیں مگر ہر سال ہونے والے بجٹ میں ان رائی کے دانوں کے نرخوں کو بڑھا کر کوہ پیماہ کے پہاڑی سلسلہ کی طرح طوالت دی جاتی ہے۔

ہمارے خواب اور ہماری ضرورتیں کیا ہوتی ہیں آسانی سے عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی، رہنے کے لیے پر سکون چھوٹا سا دو کمروں کا مکان، سستے نرخوں میں گیس، بجلی و پانی کی فراہمی، اولا د کے لیے مساوی تعلیم، علاج کے لیے سستا اور آسان طریق علاج، تعلیم کی تکمیل کے بعد میرٹ کی بنیاد پر نوکری کا ملنا۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔مگر ہمارے بجٹ میں ہمارے ان چھوٹے چھوٹے مسائل و توجہات کی طرف تو نظر جاتی تو ہے مگر اس نظر کو آنکھ کادھوکہ سمجھ کر اس سے رو ح گردانی کر کے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

Poverty

Poverty

ہم کو ایک نئی امیدیں دے کر نئے آئندہ مالی سال میں بہتری کی نوید سنا کر خوش کر دیا جاتا ہے اور ہم بھی بڑی نادانی کے ساتھ اس نوید کو سن کر امیدیں لگا بیٹھتے ہیں مگر یہ بھول جاتی ہیں کہ “ہم دل تو لگا بیٹھے ۔۔۔دل توڑنے والوں سے۔

قرضے لے کر ملک چلایا جاتا ہے مگر اپنے وسائل کو اپنے مفاد کی خاطر نہیں استعمال کیا جاتا ، اور ان ہی قرضوں کو اتارنے کے لیے ہمارے اوپر ٹیکسوں کی شکل میں بھاری بھرگم بوجھ لاد کر مہنگائی کی دلدل میں دھنسیل دیا جاتا ہے اور یہ مہنگائی کی دلدل اس قدر خطرناک ہوتی ہے کہ جس میں دن بدن آدمی دھنستا ہی چلا جاتا ہے۔

اس میں سے وآپسی کی کوئی لہر نظر نہیں آتی۔ ہم کو چاہیے کہ ہم اپنے وسائل کو بغیر کسی مفاد کے استعمال کریں اور اپنے ملک کی پیدوار اور معدنیات کے اوپر توجہ دیں تو ہم خود بغیرکسی سے بھیگ مانگے خود کفیل ہو کر اپنے ملک کے اندر ایک بہتری اور غربت کو ختم کرنے کے لیے سدباب کر سکتے ہیں ، مگر یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ سب کرے گا کون۔۔۔؟؟؟ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گاکون۔۔۔؟؟؟غربت ختم کرے گا کون۔۔۔؟؟؟ قرضے ادا کرے گا کون۔۔۔؟؟؟یہ وہ سوال ہیں جو کہ ہم سب پاکستانی ہر وقت اپنے آپ سے کرتے ہیں مگر ان کے جواب کے لیے ہم خود کچھ نہیں کرتے تو کیا کوئی اور خاک ہمارے ان سوالوں کا جواب دینے کے لیے تیا ر ہو گا۔۔۔ذرا سوچو۔۔۔!!!

Mohammad Javad Khan

Mohammad Javad Khan

تحریر : محمد جواد خان
mohammadjawadkhan77@gmail.com