تبدیلی اور ریاست ِ مدینہ کے دعویداروں نے اپنے پیش رووں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے حسب روایت بے مثال بجٹ پیش کیا ہے ،وزیر مملکت خزانہ نے بجٹ تقریر میں اعداو شمار کے جو رنگ بکھرے ہیں ،وہ شاہد دنیا بھر کے ماہرین معاشیات کی سمجھ میں آ گئے ہوں ، لیکن پاکستان کے ناخواندہ عوام کے اوپر سے ضرور گذر گئے ہوں گے ۔چیئرمین تحریک انصاف اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب نے بھی اپنے پیغام میں عوام کو یقین دلایا ہے کہ بس یہ جورو ستم محض ایک سال کے لئے ہے ،قوم اس معاشی بحران میں ان کا ساتھ دے ،آئندہ قوم کو ہر طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آئے گی ۔اس سے پہلے سابقہ وزیران و مشیران حکومت اگرچہ پنجسالہ اور دس سالہ انقلابی منصوبے پیش کیا کرتے تھے اور ببانگ دہل اعلان کیا کرتے تھے کہ ہماری تجاویز وآراء پر عمل درآمد کی صورت میں عوام کی ترقی و خوشحالی کا خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہو گا ۔لیکن ان سبھی ماہرین اقتصادیات کے منصوبے محض اعلانات تک ہی محدود رہتے کیونکہ ان کی بلی تھیلے سے باہر آنے سے پہلے ہی انہیں گھر بھیج دیا جاتا تھا ،حکومتی ٹولہ مخصوص خیالات و نظریات کے حامل افراد پر مشتمل ہے جوہر حکومت میں کسی نہ کسی صورت شامل ہوتا ہے ،یہ ٹولہ اپنے غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی کیلئے انہی کے مقاصد کو پروان چڑھانااپنا فرض عین سمجھتا ہے ۔اس ٹولے کو ملک و ملت کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ،لیڈر اور رہبر وہ ہوتا ہے کہ جو رعایا کے لئے آسانیاں پیدا کرے لیکن ہمارے لیڈر قوم کی مشکلات کو کم کرنے کی بجائے انہیں زندہ درگور کر نے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔
فرنگی سامراج نے برصغیر کی غیر منصفانہ تقسیم کے ذریعے ایک خطہ ء زمین پاکستان کی صورت میں مسلمانوں کو دیا لیکن ساتھ ہی مسلم اُمہ کے لئے ایک نہ ختم ہونے والے انتشار و نفاق کاایسابیج بھی بویا تھا تو آج بھی عذابِ جاں بنا ہوا ہے ، فرنگی سامراج نے مسلم اُمہ بظاہر آزادی تو دے دی لیکن عملاًمعاشی غلامی کا طوق ہمارے گلے میں ڈال دیا ، اورہم پر اپنے ایجنٹوں کو مسلط کرکے اس غلامی کو مزید اذیت ناک بنا دیا ۔یہی وجہ ہے کہ ہر سال پیش ہونے والا بجٹ ”آئی ایم ایف”کے ایجنڈے کا عکاس ہوتا ہے ۔آئی ایم ایف پاکستان کو اپنی شرائط پر قرض دیتا ہے اور قرض کی واپسی کیلئے بنیادی ضروریات زندگی کے نرخ بھی اپنی منشا ومرضی کے مطابق رکھنے کا پابند بناتا ہے ۔آج تک ہمیں کوئی ایسا حکمران نہیں مل سکا ،جس نے اس فرنگی سازش کے خلاف کوئی حکمت عملی اپنائی ہو، ہر حکمران” آئی ایم ایف ”سے سود پر قرض لیتا ہے اورقرض کی منظوری پر جشن مناتا ہے ۔موجودہ حکومت نے بھی انہی روایات کو آگے بڑھایا اور 6ارب ڈالر زمزید قرض کی نوید قوم کو سنائی ہے ،اور خوش ہیں کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا ہے ۔
ادھر ایشیائی ترقیاتی بینک نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان کے ساتھ 3.4 ارب ڈالر قرض دینے کا معاملہ ابھی طے نہیں پایا۔ بینک ہذاء کی جانب سے یہ وضاحت اتوار کے روز 2 وفاقی وزرا کے اس دعوے کے بعد جاری کی گئی کہ اے ڈی بی پاکستان کو 3.4 ارب ڈالر کا قرضہ دے گا۔ایشیائی ترقیاتی بینک کے پاکستان میں کنٹری ڈائریکٹرXiaohong Yang نے ایک بیان میں کہا کہ ابھی مذاکرات جاری ہیں، قرض کا حجم اور دیگر تفصیلات بینک کی انتظامیہ اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری سے مشروط ہیں۔ 2 روز قبل وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی خسروبختیار نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان اور اے ڈی بی کے درمیان 3.4 ارب ڈالر قرض کے معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ اس سلسلے میں وزارت خزانہ نے وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کردیا ہے ۔خسروبختیار کے دعوے کے بعد مشیرخزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک پاکستان کو 3.4 ارب ڈالر قرض دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اے ڈی بی کے ڈائریکٹر جنرل Werner Liepach سے ملاقات میں قرض کے پروگرام پر اتفاق ہوگیا ہے۔ بینک بجٹ سپورٹ کے طور پر 3.4 ارب ڈالر مہیا کرے گا۔ 2.2 ارب ڈالر نئے مالی سال میں مل جائیں گے۔اس بیان کے بعد اے ڈی بی نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ سپورٹ پروگرام پر حکومت پاکستان کے ساتھ بات چیت جاری ہے اور بینک غیرملکی قرضوں اور توازن ادائیگی بہتر کرنے کے ضمن میں حکومت کی مدد کرسکتاہے۔ تاہم اے ڈی بی کے پاکستان میں واقع دفتر نے بجٹ سپورٹ کے لیے 3.4 ارب ڈالر قرض دینے کا دعویٰ مسترد کردیا۔کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے 3 جولائی2019ء کو 6 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی منظوری تک ورلڈ بینک اور نہ ہی اے ڈی بی پاکستان کو کوئی قرض فراہم کرے گا۔ یہ بات طے ہے کہ آئندہ مالی مشکلات سے نمبٹنے کیلئے پاکستان کو آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر مالیاتی اداروں سے بھی قرض لینا پڑے گا۔ غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر اور آ ئی ایم ایف کا قرضہ بھی آئندہ مالی سال میں 20 سے 22 ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ثابت ہوگا۔
حکومت نے 9ماہ میں قوم کو جس معاشی عذاب میں مبتلا کیا ہے اس کی مثال تو بھٹو دور میں بھی نہیں ملتی ۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام سے ہر چیز پر ٹیکس لے رہی ہیں ،بجلی ،گیس ،ٹیلی فون ،پانی،کھانے پینے کی اشیاء سمیت بنیادی انسانی ضروریات کی مد میں ملک کا ہر فرد سالانہ لاکھوں روپے ٹیکس ادا کرتا ہے جبکہ اس کے بدلے میں ریاست رعایا کو کوئی سہولت نہیںدیتی ،تعلیم ،صحت عامہ اور روزگار کی فراہمی کی ذمہ داریاں بھی ریاست پوری نہیں کرتی ، لوگوں کی جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ریاست اور ریاستی ادارے بُری طرح ناکام ہو چکے ہیں کھربوں روپے کا بجٹ ریاستی مشینری چلانے والوں پر ضائع کر دیا جاتا ہے ۔اب حکومت نے وفاقی بجٹ میں بھی ٹیکس کی چھوٹ کم کرکے سالانہ 4لاکھ اور 6لاکھ روپے آمد ن پر ٹیکس لگا دیا ہے ۔ٹیکس میں چھوٹ کی حد ماضی میں تقریباً12لاکھ روپے تھی۔
پاکستان میں خاندانی نظام ایک کمانے والا اور 10کھانے والے اصول کے مطابق چل رہا ہے ، ایک شخص جس کی آمدن ماہانہ 10سے 30ہزار روپے تک ہیں ،اور اس کے زیر کفالت افراد کی تعداد 6سے 10افراد پر مشتمل ہے ، ہر شہری اپنی اس آمدن سے مکان کا کرایہ ، یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی ، بچوں کے تعلیمی اخراجات ، علاج معالجہ ، روزانہ کی خوراک و دیگر ضروریات کس طرح پوری کرتا ہے اس کا اندازہ اسی شخص کو ہو سکتا ہے جو اپنے زیر کفالت افراد کی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہوتا ہے ۔یہی شہری ہر ماہ اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے ادھار لیتا ہے اپنی عزت کا نیلام کرتا ہے پھر جا کر اپنی گذر بسر کرتا ہے ۔بجلی ، گیس اور فون پر لئے گئے ٹیکسز کا ہی شمار نہیں ہے ، اب حکومت فائلر اور نان فائلر کے چکر میں لوگوں کو الجھا کر ان کے لئے مزید پریشانیاں پیدا کرنے کے درپے ہیں ۔اگر ریاست کے ذمہ داران جو کہ کسی نہ کسی شکل میں فائلر ہی ہیں ، اگر ان کے معاملات کی ہی تحقیقات کروا لی جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ کروڑوں کی آمدن والے ریاستی ذمہ داران ، ہماری افسر شاہی ،وزرا ء کرام ، اراکین اسمبلی اور دیگرلوگ حکومتی خزانے میں کتنا ٹیکس دیتے ہیں ۔جو صورتحال واضح ہو جائے گی کہ کون کیا کر رہا ہے ۔لے دے کر ہر حکومت غریب وسفید پوش طبقات پر ہی ٹیکسز کا بوجھ بڑھا تی ہے ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد اضافے کی نوید سنائی گئی ہے ،لیکن اگر بازاروں میں آنے والے مہنگائی کے” سونامی ”کا جائزہ لیا جائے تو دکانداروں نے ڈالر کی اُڑا ن اورپیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو بنیاد بنا کر ہر چیز کے نرخ میں 10سے 20روپے کا اضافہ کر دیا ہے ۔یوں اگر ایک سرکاری ملازم کی تنخواہ میں ایک ہزار روپے کا اضافہ ہوا ہے تو اس کے مقابلے میں صرف اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں 5سے 10ہزار روپے ماہانہ کا اضافہ ہو چکا ہے ، نجی اداروں کے ملازمین کی تنخوائیں تو ویسے بھی بڑھنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ،اگر نجی ملازمین اپنے” باس” سے مہنگائی کی وجہ سے تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کریں تو غریب ملازم کو اپنی نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں ۔موجودہ معاشی بحران میں لوگوں کے لئے اپنی سانسیں بحال رکھنا محال ہو چکا ہے اور ریاست مدینہ کے دعویدار لوگوں کو روشن مستقبل کی نوید سنا کر اپنی زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔
وطن عزیز کا المیہ یہ ہے کہ قوم کو جو حکمران بھی ملا اس نے غریبوں کے حقیقی مسائل پر دھیان نہیں دیا ،موجودہ حکومت بھی چوروں اور ڈاکوؤں کے احتساب اور ان کی پکڑ دھکڑ کا ڈرامہ رچا کر قوم کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے کی پالیسی پر گامزن ہے ۔کنٹینر پر چڑھ کر لیڈروں کو للکارنا آسان لیکن ملک کو منجدھار سے نکالنا ایک مشکل کام ہے اور ایسی صورت میںجب مفاد پرست ٹولہ حاکم کے گرد حصار بنالے تو کوئی بھی ”تبدیلی پروگرام ”آگے بڑھانا اور تکلیف دہ ہوجاتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان رعایا کے حقیقی معاشی مسائل کو حل کرنے کے لئے اقدامات اٹھائیں ،آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے کی تدابیر کریں۔سابقہ دور کے چوروں اور لٹیروں کی لوٹ مار کا سراغ لگانے کیلئے کمیشن یا کمیٹیاں بنانے کا عمل خاطر خواہ کامیابیوں کا حامل نہیں ہو سکتا ۔قوم کو عمران خان سے بہت سی توقعات وابستہ تھی ،اسی بناء پر انہیں ووٹ دئیے گئے ،لیکن انہوں نے اپنی کارکردگی نے عوام کو مایوس کیا ہے ،یہ الگ بات ہے کہ لوگ اب بھی روشن مستقبل کی آس لگائے بیٹھے ہیں ،اس لئے انہیںاپنے دعوؤں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے پر دھیان دینا ہو گا۔
Syed Arif Saeed Bukhari
تحریر : سید عارف سعید بخاری Email:arifsaeedbukhari@gmail.com