دنیا میں کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے ماہر ین اس کی معلومات حاصل کرتے ہیں ۔اور عوام کو نئے منصوبے کے فوائد اور نقصانات سے آگا ہ کرتے ہیں ۔اس مقصد کے لئے سیمینار، تقریبات اور پریس کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتاہے تاکہ عوام کو نئے منصوبے کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل ہوسکے ۔یوں سمجھے لیں کہ آگاہی کا لفظ اپنے عام استعمال کے علاوہ نفسیات سے بہت گہرا تعلق بھی رکھتا ہے اور علم ادراک میں اس سے مراد ادراک سے بعد کا درجہ لیا جاتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ الیکشن مہم میں سیاستدان قوم سے بہت سے وعدے کرتے ہیں ۔ جن کی ہزاروں مثالیں موجودہیں، ایک وعدہ الیکشن مہم میں وزیراعظم عمران خان نے کیا تھا کہ نیا پاکستان میں ہرشہری کے حقوق کاتحفظ کیا جائے گا ۔آج کل پاکستان بھر میں تحریک انصاف کی حکومت کے ضمنی بجٹ پر بحث جاری ہے ۔کہ حکومت نے178ارب روپے کے نئے مختلف ٹیکس لگادئیے ہیں ۔یعنی ضمنی بجٹ میں178ارب روپے نئے ٹیکس کا مطلب کے ہر پاکستانی کو812روپے اب مزید ٹیکس اداکرنا ہو گا ۔ اگرتحریک انصاف کی حکومت پاکستانی قوم میں بجٹ کے حوالے یہ ایک آگاہی مہم شروع کرتی توشائد سابق حکمرانوں اور اپوزیشن کی بدزبانی اور بد تہذیبی کا ٹیلی وی چینلز اور اخبارات میں بیانات سے یہ طوفان نہ آتا ، کہ تحریک انصاف کی حکومت کے اس اقدام سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا ۔ اور ہر طرف احتجاج ہوں گے۔
حالانکہ ضمنی بجٹ پیش کرنا تحریک انصاف کی حکومت کو کوئی نیا اقدام نہیں ۔ بلکہ قانون کے مطابق حکومت کو ہر سال بجٹ پیش کرنا ہوتا ہے جس میں وہ پورے سال کیلئے مختلف سکیموں اور آشیاء خوردونوش سمیت مختلف چیزوں کی قیمتوں کا تعین کرتی ہے۔ حکومت عوامی فلاح کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹیکسوں کی شرح میں ردوبدل کردیتی ہے۔ بعض آشیا ء پر نئے ٹیکس لگائے جاتے ہیں جبکہ بعض پرٹیکس چوٹ یا سبسڈی دی جاتی ہے تاکہ عوام کو روزمرہ آشیاء کی خریدنے میں مشکلات نہ ہو یا مہنگائی کو اس طرح کنٹرول کیا جاسکے۔
کیوں کہ بجٹ کو سرمایہ اور آمدنی کے تخمینہ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ سرمایہ کے تخمینہ کا استعمال سڑکیں بنانے اور قرضے معاف کرنے جیسے اقدام کے لئے ہوتا ہے۔ آمدنی کے تخمینہ کا استعمال تنخواہیں دینے اور انتظامی اخراجات کے لئے ہوتا ہے۔ اسی طرح سرمایہ کے محاصل یعنی آمدنی کو حکومت کو ملنے والے گھریلو اور بیرونی آمدنی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس میں صوبائی حکومتوں کی طرف سے ادا کئے گئے قرضے،سرکاری کمپنیوں کی سرمایہ کاری، ٹیکس کی وصولی، سرکاری کمپنیوں کا منافع اور ٹیلی کام لائسنس جیسی آمدنی شامل ہیں۔
ایک سیدھی سی بات یہ ہے کہ حکومت کا فرض ٹیکس وصول کرنا غریبوں کو ریلیف دینا اور معاشرے میں عدل قائم کرنا ہوتا ہے، معاشی عدل بھی۔ وزیرخزانہ کو کھربوں روپے کا بجٹ بنانے سے پہلے ایک اوسط خاندان اگر دو میاں بیوی اور دو بچوں پر مشتمل ہے تو 14یا 15 ہزار روپے میں اس کے لیے آٹا، دال، گھی ، چینی ، سبزی، مرچ مصالحے ، کرایہ مکان ، کپڑے، جوتے، بچوں کی تعلیم ، کام پر جانے اور بچوں کو سکول بھیجنے کا خرچ۔ رشتہ داری ، بیماری اور حادثات کے لیے بچت بتانا چاہیے۔ سرکاری ملازموں کی تنخواہ چونکہ سرکاری حساب کتاب اور بینکوں کے ذریعہ دی جاتی ہے اور اس لیے یہ تنخواہ ان کو مل جاتی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں با آسانی یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ بجٹ عام آدمی کے لیے ریلیف نہیں لایا۔ پاکستان میں عام آدمی کروڑوں ہیں۔ اگر یہ بجٹ ان کے فائدے کے لیے نہیں ہے تو پھر بجٹ سے فائدہ کس کو پہنچے گا۔
چند روز قبل وزیر خزانہ اسد عمر نے قومی اسمبلی میں سپلیمنٹری بجٹ پیش کیاانہوں نے بجٹ تقریر میں جو اعداد و شمار پیش کئے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 18سے 21ارب ڈالر ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بنک کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں‘ اس صورت حال میں بہتری کے لیے برآمداتی شعبہ کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ ٹن پیک درآمدی اشیائے خورو نوش پر ڈیوٹی کی شرح بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے ‘اس کے علاوہ 300پرتعیش اشیا پر ڈیوٹی لگائی جا رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے ڈیموں کی تعمیر کے لیے سالانہ بجٹ میں مختص رقم میں مزید اضافے کا عندیہ دیا ہے۔
سپلیمنٹری بجٹ میں ایک قابل ذکر فیصلہ پٹرول پر ڈویلپمنٹ لیوی واپس لینا ہے۔ یہ ٹیکس پٹرولیم مصنوعات کی ریفائنری اور دیگر منصوبوں کے لیے رقم جمع کرنے کا ذریعہ تھا۔ پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی ٹیکس 1961ء سے وصول کیا جا رہا ہے لیکن اس دوران ملک میں جمع ہونے والے کھربوں روپے کے اس ٹیکس سے پٹرولیم کے شعبہ کی ترقی کے لیے خاطر خواہ منصوبے شروع نہ کئے جا سکے۔ اب حکومت اگر اسے ختم کر کے صارفین کو ریلیف پہنچانا چاہتی ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے ایک بار پھر روپے کی قدر میں کمی کرنا پڑے۔ اس کا اشارہ وزیر خزانہ اسد عمر اپنی بجٹ تقریر میں دے چکے ہیں۔ ایسی صورت میں تیل کی قیمت جمع منفی کے بعد لگ بھگ موجودہ سطح پر رہنے کا امکان ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ضمنی بجٹ بارے عوام کو ایک مہم کے ذریعے آگاہ کرے کہ مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے حکومت کونسے نئے منصوبے شروع کرے گی ۔ نجی اداروں اور عام مزودوں کی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کے لئے کیا اقدامات کرے گی۔ جس کا وعدہ الیکشن مہم میں عمران خان نے قوم سے کیا تھا۔