تحریر : میر انسر امان جدید دنیا کے رواج کے مطابق پاکستان کی حکمران جماعت نے بھی بجٹ ٢٠١٧ئ٢٠١٨ء پاکستان کی پارلیمنٹ میں پیش کر دیا۔ اس سے قبل بجٹ کے مسودے کی وفاقی کابینہ سے اجازت لی گئی۔بجٹ اجلاس کو صدر مملک خطاب کریں گے۔بجٹ پیش کرتے وقت اپوزیشن نے روائتی طور ہنگامہ گھڑا کیا اور اس بجٹ کو عوام دشمن بجٹ کا نام دیا۔ اپوزیشن لیڈر کی تقریر کو برائے راست نشرنہ کرنے پر اسمبلی کی کاروائی کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ اپوزیشن نے اسمبلی سے باہر اسمبلی لگائی۔ آج تمام اپوزیشن پھر اکٹھی ہو رہی ہے اور احتجاج کو آخری شکل دے گی۔ اگر حقیقت حال کو سامنے رکھا جائے تو بجٹ کے معاملے میںنہ تو حکمران جماعت اور نہ ہی اپوزیشن بالغ نظری کا مظاہرہ کرتی ہے۔ جدید دنیا میں بجٹ بنانے سے بہت پہلے ملک کی معیشت چلانے والے اداروں سے مشورہ لیا جاتا ہے اور ان کی سفارشات جو ملک کے نظام کے لیے مناسب ہوتیں ہیں ان کو بجٹ کی دفعات میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس طرح اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لیا جاتا ہے تاکہ غیر ضروری تنقید سے بچ کر صرف قابل عمل باتوں کو بجٹ کے آخری مرحلے میں شامل کیا جائے اور نظامِ حکومت عوام کی بھلائی کے لیے ٹھیک ٹھیک چلے اور غیر ضروری بعث سے بچا جائے۔ملک کے عوام جن پر بجٹ کی زد پڑھنی ہوتی ہے وہ تو اپنے گھروں کے چولھے گرم رکھنے کی تگ دو میں مصروف ہوتے ہیں۔
بجلی ان کونہیں مل رہی نہ گیس نہ پینے کے صاف پانی کا انتظام ،نہ صحت کی آسانیاں۔ ان کو کیامعلوم کہ ان کے خزانے پر کون کون ہا تھ صاف کر رہا ہے۔ سیاست دان جو بجٹ بناتے ہیں اور اپوزیشن جو اس بجٹ پر اعتراضات کرتی ہے سب سے پہلے اپنے لیے مراعات پاس کراتیں ہیںبعد میں کچھ بچ جائے تو عوام کے حصہ میں آتاہے۔ سیاست دانوں اور ان کے بچوں کے لیے اگر بجلی تاروں میں بجلی نہیں آرہی تو کیا ہوا۔ بڑے بڑے جرنیٹرزا ن کے گھروں اور دفاتروں میں لگے ہوتے ہیں اُدھر بجی گئی اِدھر خودکار طریقے سے جرنیٹرز نے بجلی پیدا کرنا شرع کر دی اللہ اللہ اور خیرصلہ۔ان کو منرل واٹر مہیا ہوتا ہے جبکہ عوام کو پانی مہیا کرنے والے نلوں میں اول تو پانی آتا ہی نہیں اور اگر پانی آتا بھی ہے تو ان میںگٹہر لین کا پانی ملاہو اہے۔ سیاستدانوںکے بیوی بچوںکے علاج ملک کی ہسپتالوں کے بجائے باہر ملکوں کے مہنگے ہسپتالوں میں ہوتے ہیں۔ان کے کاروبار بھی پاکستان کے بجائے باہرملکوں میں ہیں۔ ملک کے خزانے سے لوٹا ہوا پیسا سوئس بنکوں، امریکا یا مغربی ملکوں کے بنکوں میں پڑا ہوا ہے۔ ان کی اولادیں بھی ملک میں کاروبار کرنے کی بجائے باہر ملکوں میں کاروبار کرتے ہیں۔
اگر بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے خاندان کی بات کی جائے جو سیاست میں آنے کے بعد کھربوں کے مالک بن بیٹھے ہیں۔کسی کاباپ لوہے کی چھوٹی سے بھٹی کامالک تھا تو کسی کا باب واکی ٹاکی چلاتا تھا۔ اقتدار میں رہتے ہوئے ان کے پاس اتنی دولت جمع ہو چکی ہے کہ سنبھالی نہیں جاتی۔اب ملک کی اعلی عدالت میں کسی پر ناجائز دولت کے مقدمات چل رہے ہیں اور کوئی ناجائز دولت کمانے کی وجہ سے سالوں قیدمیں بند رہے۔ حکومت میں ہونے کی وجہ سے ریکارڈ ہی غائب کر دیا اور عدالتوں میں ثبوت پیش نہ ہونے پر مقدمات سے بھی بری ہو گئے۔ان کی بات تو اپنی جگہ پر ملک کے وزیر اور عام ممبر قومی اور صوبائی اسمبلی جو سیاست میں آنے سے پہلے موٹر سائیکل پر سواری کرتے تھے یا بان کی معمولی چارپائیوں پر بیٹھتے تھے اور غریب بستیوں میں رہائش پذیر تھے اب پیجارو میں سواری کرتے ہیں شہروں کے پوش علاقوں کے بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں۔ہم لکھ لکھ کر تھک گئے کہ سیاست دانوں نے سیاست کو تجارت بنا لیا ہے۔
کروڑ لگائو اور اربوں کمائو والی بات ہے۔ان کو مدینے کی اسلامی ریاست کے بانی اپنے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی طرز حکمرانی اور ان کے تربیت یافتہ خلفائے راشدین کی طرز حکمرانی کے سنہری دور کے واقعات بیان کر کر کے بتائے مگر ان دولت کے پجاریوں سیاست دانوں نے اس دنیا کو ہی اصل دنیا سمجھ رکھا ہے جس میں ہر وقت مگن رہتے ہیں۔ یہ غریب پاکستانیوں کی پریشانیوں سے کہاں واقف ہیں کہ عوام دوست بجٹ بنائیں اور دولت کی روانی کو امیروں سے غریبوں کی طرف منتقل کریں۔ یہ تو آئی ایم ایف سے قرض پر قرض لے کے پاکستان کے ہربچے کو ایک لاکھ پچیس ہزار کا مقروض بنا چکے ہیں۔قرض لے کر غریبوں پر خرچ کرنے کے بجائے اللے تللے اور غیر ترقیاتی کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔ اخباری خبر کے مطابق حکومت نے٣١٠ ارب روپے متعلقہ محکموں کی منظوری کے بغیر شاہ خرچیوں پر اُڑا دیے۔ یہ رقم پر تعیش گاڑیوں اور باہر سے آئے ہوئے لوگوں کی سیکورٹی کے نام خرچ ہوئی۔ہم سابق صدر کے ایوان صدر کے کیچن پر کروڑوں کے غیر ضروری خرچ کی باتیں پریس میں پڑھتے تھے اب تو ن لیگ کے لوگوں کی شاہ خرچیوں کی باتیں بھی پریس میں آرہی ہیں۔صاحبو!فائنل بجٹ تو وہی ہو گا جو نون لیگ چائے گی ۔ ان کے پاس پارلیمنٹ کے اندر دو تہائی اکثریت ہے جو بجٹ پاس کرنے میں کام آتی ہے۔ نہ تو اپوزیش لیڈڑ کی اپوزیشن کو بجٹ پر تنقید کرنے کامناسب موقعہ دیا۔ وہ مسلسل احتجاج پر احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ غیر جمہوری طریقہ ہے اس سے حکمران جماعت کو اجتناب کر نا چا ہیے۔ ہونا تو وہی ہے جو حکومت چاہے گی یہی ہم پہلے کہہ چکے ہیںمگر پھر بھی بجٹ منظور ہونے سے پہلے عوام کی طرف سے پیش کردہ گزارشات پرمشترکہ پارلیمنٹ کا اجلاس غور کرے۔
غریب مزدور کی ماہانہ تنخواہ کم از کم بیس ہزار ہونی چاہیے۔ حکومت پہلے ہی بہت قرض لے چکی ہے اب مزید قرضے نہیں لینا چاہیے۔ ملک سے سود ختم کیا جائے۔انشورنس اسکیمیں تکافل کی بنیاد پر متعارف کرئی جائیں۔مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے لہٰذا تنخوائوںاور پنشن میں تیس فی صد اضافہ کیا جائے۔یتیموں، بیوائوں اور غریب کسانوں کو بغیر سود کے قرضے دیے جائے۔ پچھلی نون حکومت نے نوجوانوں کو کاروبار کے لیے پانچ لاکھ قرض دیے تھے جن کے کاروبار نہیں چل سکے ان کے قرضے معاف کر دیے جائیں۔ٹیلیفوں صعارفین پر ایڈوانس ٹیکس ختم کیا۔ ہر قسم کے نائٹ پیکجز ختم کیے جائیں۔غریب عوام کی خریداری پر ٹیکس کی بجائے امیروں پر ٹیکس لگائے جائے۔جو بھی ممبر پارلیمنٹ ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کراتا اور ٹیکس نہیں دیتا ان کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔دولت کے بھائو کو امیروںکے طرف سے غریبوں کی طرف موڑاجائے۔زکوٰة کے نظام کو بہتر کیا جائے۔ مستعقین کو زکوٰة سے مدد میں اضافہ کیا جائے۔ بجٹ کو صحیح معنوں میں عوام دوست بنایا جائے صرف آئی ایم ایف کے احکامات پر ہی عمل نہ کیا جائے وہ تو ہمیشہ اپنا قرض اور سود کی واپسی کے لیے عوام پر بوجھ ڈالنے کا ہی کہتی ہے۔ اگرہمارے حکمران رسولۖاللہ کی حدیث پر عمل کریں تو مسلمانوں کے سارے معاشی معاملات طے ہو سکتے ہیں۔حدیث کامفہوم یہ ہے کہ تم میری لائی ہوئی شہریت کو نافذ کردو تم زکوٰة ہاتھوں میں لیے لیے پھررو گے اتنی خوشحالی ہو جائے گی کہ تمھیں کوئی بھی زکوٰة لینے والا نہیںملے گا۔اللہ ہمیں اسلام کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
Mir Afsar Aman
تحریر : میر انسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان