مسلم لیگ ن حالیہ الیکشن میں سب سے زیادہ ووٹ لیکر برسر اقتدار میں آئی ہے۔ اس کی وجہ سابقہ حکومت سے عوام مایوس ہوچکی تھی۔ ہر طرف مہنگائی کا دوردورہ تھا۔ ملک کا امن و امان تباہ ہو چکا تھا۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ نے عوام کی سانسیں بند کر رکھی تھیں۔ ان حالات میں اگر عوام کو کوئی روشنی کی کرن نظر آئی تو وہ نواز شریف کی صورت میں نظر آئی۔ اسی لیے پاکستان کی عوام کو میاں نوازشریف سے بہت سی امیدیں وابستہ ہو گئیں۔
شہروں میں تو الیکشن ہمیشہ پارٹی کی بنیاد پر لڑا جاتا ہے مگر گاؤں اور دیہاتوں میں الیکشن گروپ کی بنیاد پر لڑا جاتا ہے۔ مگر اس بار الیکشن میں خاص طور پر غریب طبقہ نواز شریف کو اندھیرے میں امید کی کرن سمجھ رہے تھے۔ اس لیے عوام نے میاں صاحب کو اقتدار کی کرسی پر بیٹھایا۔ میاں صاحب نے سب سے پہلے عوام کو اس وقت دکھ پہنچایا جب انہوں نے اپنے بیان میں خزانہ خالی کارونا رو کر لوڈشیڈنگ کے خاتمے کو بہت پیچھے دھکیل دیا۔
کیا میاں صاحب کو نہیں معلوم تھا کہ زرداری اینڈ کو نے خزانے میں کیا چھوڑا ہو گا؟ مگر الیکشن مہم میں تو اقتدار کی خاطر بڑے بلند وبانگ دعوے کیا جا رہے تھے۔ عوام جو میاں شہباز شریف سے چند ماہ میں لوڈشیڈنگ خاتمہ کی توقع کیے بیٹھے تھے نہ جانے اب چھوٹے میاں کیوں خاموش ہو گئے ہیں۔ جبکہ اب تومرکزی حکومت بھی ان کی ہے پھر کیوں لوڈشیڈنگ پر قابونہیں پایا جا رہا؟ لوڈشیڈنگ تو اب ایک طرف ن لیگ نے جو بجٹ دیا ہے اس نے واقعی غریب دوست بجٹ پیش کیا ہے۔
کیونکہ عوام نے جس کو چاہا اس نے ہی عوام کے منہ سے نوالہ چھینا ہے۔ عوام جو توقع کئے ہوئے تھی ن لیگ وہ بجٹ پیش نہ کرسکی۔ مہنگائی کا ایسا طوفان برپا کر دیا ہے کہ غریب جو پہلے ایک وقت کی روٹی کھارہی تھی وہ بھی چھیننے کی کوشش کی گئی ہے۔ اب اس بجٹ کی وجہ سے غریب عوام کو جن روزمرہ ضروریات زندگی میں اضافہ دیکھنا پڑے گا اس پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے۔ بجٹ میں جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ خوردنی تیل پر پانچ فیصد اضافی ڈیوٹی پر لگا دی گئی ہے۔
بنولہ پر ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے۔ ڈبے کے دودھ پرسیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے۔ سگریٹ، پان اور چھالیہ پرمزید ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ بجلی کے نرخوں میں آئے دن اضافہ ہورہا تھا مگر رہی سہی کسراس حکومت نے پوری کردی۔ زیادہ بجلی استعمال کرنے والوں کو اب لگے گا زور دار جھٹکا۔ ہزار یونٹس سے زائد بجلی کے ماہانہ استعمال پر دس فیصد ہولڈنگ ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ چینی پر سیلز ٹیکس آٹھ فیصد سے بڑھا کر اب سولہ فیصد کر دیا گیا ہے۔ کپڑوں کی مقامی فروخت پر زیرو ٹیکس کی سہولت ختم کر دی گئی ہے۔ لیدر مصنوعات پر ٹیکس لگایا دیا گیا ہے۔ بینک سے رقم نکلوانے پر اب اعشاریہ تین فیصد کی شرح سے ٹیکس لیا جائے گا۔ ایک ٹن سریے کی قیمت میں تین ہزار روپے کا اضافہ ہو جائے گا۔
Income Tax
مالی سال-14 2013 کے لئے انکم ٹیکس کیلئے سلیب چھ سے بڑھا بارہ کر دی گئی ہیں۔ نئے سلیب کے تحت 4 لاکھ سے 5 لاکھ سالانہ آمدنی پر 5 فیصد سالانہ ٹیکس عائد ہو گا۔ 5 لاکھ سے 8 لاکھ روپے آمدنی پر سالانہ انکم ٹیکس کی شرح 7.5 فیصد بشمول پانچ ہزار روپے ہو گی۔ آٹھ سے تیرہ لاکھ روپے آمدنی پر انکم ٹیکس کی شرح دس فیصد بشمول ساڑھے ستائیس ہزار روپے ہو گی۔ جبکہ13 سے 18 لاکھ انکم ٹیکس کی شرح 12.5 فی صد بشمول ستترہزارپانچ سو ہو گی۔ 18 سے 22 لاکھ پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد بشمول ایک لاکھ چالیس ہزار روپے ہو گی۔
اس بجٹ میں عوام کیا ریلیف دیا گیا یہ تو آپ خود بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ریلیف ملا ہے تو امیروں کو یا تاجربرادری کو۔ یہی وجہ ہے اس بجٹ کے فوراً بعد سیاسی رہنماوؤں نے اپنے خیالات کے ذریعے بجٹ کی پسند یا ناپسند کا اظہار کر دیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے اسے عوام دشمن اور جاگیرداروں کا بجٹ قرار دیا ہے۔ پی پی کے رہنما رہنما خورشید شاہ نے کہا کہ عوام بجٹ تقریر سے مایوس ہوئے کیونکہ عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت 6 ماہ میں بجلی بحران ختم کرنے کے دعوے سے پیچھے ہٹ گئی۔ سبسڈی ختم کرنے سے بجلی مہنگی ہو گی جبکہ جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے سے مہنگائی میں بڑھے گی۔
ایم کیو ایم کے فاروق ستار نے کہا کہ حکومت نے بجٹ میں کوئی ایک اقدام بھی ایسا نہیں کیا جس سے غربت میں کمی ہو۔انہوں نے کہا کہ زرعی ٹیکس نہ لگا کر اور سیلز ٹیکس میں اضافہ کر کے عوام سے زیادتی کی گئی جبکہ جاگیرداروں کی مراعات میں بھی کمی نہیں کی گئی۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھانے پر خفگی کا اظہار کیا اور کہا کہ بجٹ میں عوام پر اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے۔ اے این پی زاہد خان نے کہا ہے کہ بجٹ میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملا اور صوبوں کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا گیا۔حنا ربانی کھر نے ماسکو سے بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ بجٹ عوام دوست نہیں ہے۔ اس بجٹ سے غریب آدمی مزید غربت میں پسے گا اور امیر لوگ فائدہ اٹھائیں گے۔
حکومتی ارکان اس بجٹ کوشاندار بجٹ قرار دے رہے ہیں۔انہوں نے کہاہے کہ مسلم لیگ نون کی حکومت نے مشکل حالات میں شاندار بجٹ پیش کیا ہے اور بجلی بحران کے لیے دو سو پچیس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو ایک خوش آئند امر ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ وفاقی بجٹ ملکی تعمیر و ترقی اور عوامی خوشحالی کاباعث بنے گا، انہوں نے وزیراعظم آفس کے اخراجات میں کمی اور صوابدیدی فنڈز کے خاتمے کو ایک اچھا فیصلہ قرار دیا۔تاجر برادری میں اسلام آباد کے کاروباری طبقے نے بجٹ14ـ 2013 کو صنعت کاری کے لیے موافق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ میں دیے گئے اہداف میں کامیابی کی صورت میں توانائی کے بحران اور معشیت کی بحالی ممکن ہو پائے گی۔
اسلام آباد چیمبر آف کامرس میں کاروباری طبقے کا کہنا تھا کہ توانائی کے بحران نے صنعت اور کاروباری طبقے کی کمر تور دی تھی، انہوں نے بجٹ میں توانائی کے 225 ارب اور گردشی قرضے کو 60 دن میں ختم کرنے کے اقدام کو سراہا۔ لاہور کے تاجروں نے بھی نئے بجٹ کو سراہتے ہوئے اسے مثالی قرار دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس سے مسائل کے حل میں مدد ملے گی۔ بجٹ میں جو کچھ تھا وہ تو آپ کے سامنے رکھ دیا مگریہ حقیقت ہے کہ اس بجٹ میں سرکاری ملازمین کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
Nawaz Sharif
اپنے اس سے پہلے آرٹیکل میں میں نے لکھا تھا کہ میاں صاحبان کی حکومت آنے پر سرکاری ملازمین کو گلہ ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ ہمیشہ زیادتی ہوتی ہے اور وہ اب پھراسں بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرکے ن لیگ کی حکومت نے یہ بات سچ ثابت کردی کہ اسے سرکاری ملازمین کا کوئی احساس نہیںہے۔ اور اگر پنشن میں جو اضافہ کیا گیا ہے وہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ اتنی مہنگائی کے دور میں ریٹائرڈ بزرگ ملازمین اپنی بیماری کا علاج بھی نہیں کر اسکتے۔
اگر اس بجٹ کے متعلق سوچا جائے تو یہ بجٹ اتنا برا بھی نہیں کیونکہ بقول میاں صاحب کے کہ خزانہ خالی ہے تو پھر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے عوام کو اتنی قربانی تو دینا ہوگی۔ بھیک مانگنے سے بہتر ہے کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لیے اتنی مہنگائی برداشت کرلیں۔ اگر مہنگائی کرکے بھی ہم نے دوسرے ملکوں کے آگے کشکول پھیلانا ہے تو پھر یہ بجٹ عوام دوست نہیں اور اگر یہ اپنے کندھوں پر انحصار کرنے کے لیے یہ سب کچھ کیا ہے تو پھر یہ بجٹ بہت اچھا ہے اور ملکی مفاد میںبھی ہے۔ تحریر : عقیل خان