تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی مشہور مقولہ ہے کہ ” نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم”سرکاری ملازمین پر یہ مقولہ مکمل طور پر فِٹ ہو رہا ہے۔ بجٹ سے پہلے یہ غریب سرکاری ملازمین بیچاروں نے کیا کیا خواب نہ سجائے تھے، کیسے کیسے سپنے نہ دیکھے تھے، مگر” کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا”کے مصداق ان کے سارے سپنے، سارے خواب چکنا چور بلکہ ملیا میٹ ہو گئے جب بجٹ تقریر آن ایئر ہوئی۔ اس سے بہتر تھا کہ ملازمین بے چارے انتظار میں ہی رہتے کم از کم اتنا تو ہوتا کہ سہانے سپنے ہی دیکھتے رہتے۔
ساڑھے سات فیصد اضافہ بقول کلرکوں کی ایک تنظیم کے ”ہاتھی کے منہ میں زیرہ ڈالنے والی بات ہے”۔بالکل سہی ہے۔ بجٹ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امیروں کو جہاں کھلے ہاتھوں سے ٹیکس چھوٹ اور رعائتیں دی جا رہی ہیں ، وہیں غریبوں سے ان کے روزی روٹی کے حقوق پر ڈالہ ڈالا جا رہا ہے اور ملک کا غریب سرکاری ملازم اور دیہی علاقوں کا کسان خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہا ہے، یہ پالیسی کا فریب نہیں تو اور کیا ہے؟میں نے تو پچھلے سال بھی اپنے کالم میں کہا تھا کہ بجٹ صرف اور صرف ہندسوں کا گورکھ دھندا ہے اور کچھ بھی نہیں۔ مہنگائی دیکھئے کہ اس شدید گرمی میں بھی حقیر سا ”انڈا ” آٹھ روپے کا فروخت ہو رہا ہے ، مرغی کا گوشت تین سو روپے کلو ہے، رمضان شریف بھی قریب ہے ایسے میں ذخیرہ اندوزوں نے بھی اپنے کمائی کا راستہ اشیاء خورد و نوش کو مارکیٹ سے غائب کرکے ڈھونڈ لیا ہے۔
کم سے کم تنخواہ تیرہ ہزار روپئے مقرر کرنا بھی سراسر زیادتی ہے، اور اس سے بھی بڑھ کر بد قسمتی یہ ہے کہ اعلان تو تیرہ ہزار کا ہوتا ہے مگر آج تک کوئی بھی ادارہ (سوائے چند ایک کے)مطلوبہ تنخواہ نہیں دیتا۔ آٹھ ہزار ، نو ہزار بس! اس سے زیادہ نہیں۔ اس پر عمل در آمد کون کرائے گا۔ یہ تو اربابِ اختیار ہی بتا سکتے ہیں۔ ہر بجٹ میں اعلان ہوتا ہے کہ اتنی لاکھ نوکریاں رواں سال میں دی جائیں گی، مگریہ نوکریاں کسے ملتی ہیں یہ بھی اربابِ اختیار ہی بتا سکتے ہیں،میں تو اپنی کہانی بتا سکتا ہوں کہ میرا اپنا بیٹا آج تک کسی بھی نوکری سے محروم ہے۔
Inflation
میرے دوست کا بھائی بھی نوکری کے لئے در بدر مارا مارا پھر رہا ہے مگر نوکری ہے کہ ناپید! ہائے بجٹ! اور ہائے مہنگائی، بس یہی رونا رہ گیا ہے سرکاری ملازمین اور اس ملک کے غریب عوام کا، کیا تیرہ ہزار سے ایک چار افراد کا کنبہ ایک ماہ اپنا خرچہ چلا سکتا ہے، جبکہ مہنگائی اپنے عروج پر ہو۔ گھر کا کرایہ، بچوں کے اسکول کی فیس، دوائیاں، مدرسے کی فیس، کتابیں، کاپیاں، روزمرہ کا راشن ، گوشت اور سبزیاں، کیا یہ سب کچھ تیرہ ہزار کی معمولی رقم سے پوری کی جا سکتی ہیں۔ آپ ہی بتایئے گر عوام نے آپ کو منصف کے منصب پر بٹھایا ہے تو فیصلہ بھی آپ ہی کریں، کہ جو کچھ آپ نے اعلان کیا تنخواہوں میں اضافے سے لے کر کم از کم تنخواہ تیرہ ہزار روپے تک، اس سے ایک عام آدمی کا گذر بسر ہو سکتا ہے۔عوام نے تو اپنا فرض آپ کو ووٹ دے کر پورا کر دیا ، اس کے بعد سارے فیصلے آپ کو ہی کرنے ہیں۔ تو خدارا اپنے فیصلوں پر نظرِ ثانی کیجئے۔ اس موقعے پر مجھے یہ شعر بہت شدت سے یاد ا رہا ہے ، میں اسے قرطاسِ قارئین کر تا ہوں۔
پھول گلشن میں کھلائے جا جگر کے خون سے کوئی دیکھے یا نہ دیکھے دل تیرا ویران ہے یہ روایت چل پڑی ہے دورِ خود غرضی میں آج ان کو ہی ٹھکرا دو جن کا آپ پر احسان ہے
تین حرف کا لفظ ” صبر” کہلاتا ہے، اور چار حرف کا لفظ ”حیات ” بس! عوام ان ہی دونوں لفظوں پر قناعت کرنا سیکھ لیں، ”صبر ” ہی کھائیں، اور ”صبر” ہی پئیں تاکہ آپ کے ” حیات ” کو چار چاند لگ جائے۔ بشرطیکہ عوام بے صبری کا شکار ہوکر چاروں خانے چِت نہ ہوں۔ فارسی میں مشہور مثل ہے کہ ” صبر تلخ است و لیکن برِ شیریں دارد” یعنی” صبر تکلیف دہ ضرور ہے لیکن اس کا پھل میٹھا ہوتا ہے”۔لہٰذا عوام تو صبر کے گھونٹ پی ہی رہے ہیں، اور نہ جانے کب تک پیتے رہیں گے۔
اختتامِ کلام بس اتنا کہ محترم وزیر خزانہ صاحب اور وزیراعظم پاکستان جناب نواز شریف صاحب بجٹ میں سرکاری ملازمین کے لئے جو ساڑھے سات فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے اس پر نظرِ ثانی کیجئے اور اس میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کے احکامات دیں تاکہ غریب سرکاری ملازمین کی داد رسی ہو سکے۔ اور کم از کم تنخواہ پر بھی اپنا نظرِ کرم فرمایئے کیونکہ اس تنخواہ میں ایک فیملی کا گزر بسر ہونا بالکل ہی ناممکن ہے۔ عوام خوشحال ہونگے تو ملک بھی خوشحال ہوگا، عوام ترقی کریں گے تو ملک بھی ترقی کرے گا، اس لئے دوبارہ بجٹ پر نظرِ ثانی کرکے غریبوں بشمول تمام سرکاری ملازمین کی بے چینی کو دور کریں۔