تحریر : منظور احمد فریدی الحمد للہ اللہ کریم کی حمد و ثناء اور ذات کبریا جناب محمد مصطفی کریم پر درودوسلام کے کروڑ ہا نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم نے عدلیہ کی طرف سے آکسی ٹو سن ٹیکہ پر پابندی کی خبر پڑھی سنی اور پھر اسے مارکیٹ سے اٹھوانے کا حکم بھی صادر فرمایا گیا صد شکر کسی کو اس بات کا ادراک ہوا ہم گزشتہ تیس سالوں سے اس بات کو احباب کو بتا رہے تھے مگر ہماری آواز کا ایوانوں تک پہنچنا ممکن ہی نہیں تھا جس ٹیکہ سے بھینس گائے کا دودھ نکالا جارہا تھا وہ زنانہ جنسی ہارمون ہے جس سے جسم میں جنسی خواہشات جنسی عمل وقت سے پہلے ہی پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے وطن عزیز میں اس ٹیکہ کے استعمال کا رواج عام ہے خاص طور پر بڑے شہر وں کراچی لاہور گوجرانوالہ کے گوالے جو دودھ مارکیٹ میں لاتے ہیں وہ جانوروں کے بچے ساتھ نہیں رکھتے بلکہ بھینس اور گائے کے نوزائیدہ بچے دودھ بچانے کی غرض سے الگ فروخت کر دیے جاتے ہیں۔
باڑوں میں دودھ نکالنے کے لیے دس پندرہ من وزنی بھینس یا گائے کو جب یہ ایک سی سی ٹیکہ لگایا جاتا ہے تو وہ بے اختیار اپنا سارا دودھ تھنوں میں لے آتی ہیں اور گھروں میں جب یہ دودھ استعمال ہوتا ہے تو بچے بچیوں پر جو اثر ہوگا وہ ہمارے فاضل جسٹس صاحب بیان فرما چکے ہیں ۔پاکستان میں ادویات کی قیمتوں کا اندازہ کسی غریب بیمار سے پوچھ لیں ہمسایہ ممالک میں ایک روپے میں بکنے والی گولی وطن عزیز میں پانچ روپے کی ہے مگر اس ٹیکہ کی قیمت میں دانستہ اتنا استحکام رکھا گیا کہ آج سے چالیس سال پہلے بھی یہ ایک روپے کا پرچون سیل ہوتا تھا اور آج بھی ایک روپے کا ہی ملتا ہے بلکہ اسے سستا کیا گیا ایک سی سی کے ایمپیول کے بجائے اسے 50 ملی لٹر کی وائل میں متعارف کروایا گیا جو دس سے بارہ روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔
خدا کریم کا لاکھ لاکھ شکر کہ ہماری عدلیہ کو اس بات کا خیال آگیا حاکم کوئی بھی ہو خطہ ارضی کوئی بھی ہو رعایا حاکم کی اولاد کی طرح ہوتی ہے اور قاضی القضاء رعایا کے حقوق کا نگہبان ہوتا ہے مگر یہاں حاکموں کو اپنے دھندوں سے فرصت نہ ملی اور قاضی صاحبان کے علم میں یہ بات بہت دیر سے آئی اسکے پیچھے کون ہے جس نے اس دوا کو مہنگا بھی نہ ہونے دیا اور اس پر کسی قسم کے ڈرگ سیل لائسنس کی پابندی بھی نہ لگائی۔
یہ ٹیکہ کریانے کی دوکانوں پر عام دستیاب ہے اس ساری کہانی کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ ہے جو کسی کے حکم پر ایسا کررہا ہے ٹیکہ کو مارکیٹ سے اٹھوانے کے بجائے اسکے مینو فیکچرز کو پابند کیا جائے اور اسے عوام کے پیٹ میں اتارنے کے دیگر طریقوں پر بھی غور فرمایا جائے تب جا کر شائد ہمارے جسٹس صاحب اپنے مقصد میں کامیاب ہوں ٹیکہ کے بعد بڑی کمپنیاں اسے جانوروں کو کھلائے جانے والے ونڈا چوکر میں مکس کر کے اپنا مکروہ دھندہ جاری رکھیں گے بلکہ دوچار کمپنیوں کے ونڈا میں تو اسکی آمیزش ظاہر ہو چکی ہے۔
دودھ نکالتے وقت بھینس کو ٹیکہ لگانے کے بجائے اسے مذکورہ کمپنی کا ونڈا ڈال دیا جائے تب بھی وہی اثر ہوتا ہے جو ٹیکہ لگانے سے ہوتا ہے اسکے بعد چکن کے شیڈوں کی باری ہے جہاں دیگر سٹیرائیڈز کے ساتھ ساتھ آکسی ٹوسن کو فیڈ میں ملا کر مرغی کو کھلایا جارہا ہے اور یہی چکن عام ڈش کی صورت اختیار کرچکا ہے میں اس مضمون کے ذریعے عدلیہ کے قابل صد تحسین جسٹس صاحب کی توجہ ان امور پر دلانا چاہتا ہوں کہ اگر انہوں نے اس نیکی کا بیڑہ اٹھا ہی لیا ہے تو اسے ادھورا نہ چھوڑیں پاکستان کی بھولی عوام کو اسکے مضمرات سے آگاہی کے ساتھ ساتھ اس پوری گیم میں شریک افراد کو بھی سامنے لایا جائے یہ قوم تو پاکستان کے قیام سے اب تک اپنے بھولے پن اور خلوص سے رہبروں سے لٹتی چلی آرہی ہے آپ کو اللہ کریم نے عہدہ دیا ہے ہمت دی ہے اور وقت دیا ہے تو کل ہم سب نے جب اس اللہ کے حضور پیش ہونا ہے تو اپنے کیے کا سب نے حساب دینا ہے وہاں ہوسکتا ہے یہی نیکی آپکی نجات کا وسیلہ بن جائے والسلام۔