رام مندر کی تعمیر کیلئے نریندر مودی کا نیا منصوبہ

Narendra Modi

Narendra Modi

تحریر: حبیب اللہ سلفی

بھارت میں ہونے والے حالیہ الیکشن کے دوران ہندو نظریا تی پہچان رکھنے والے نریندر مودی نے خود کو سیکولرظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کی اور جہاں آسان ٹیکس سسٹم، مہنگائی کے خاتمہ اور کسانوں کو فصل کی اضافی قیمت جیسے سبز باغ دکھائے وہیں دوسری طرف مسلمانوں سمیت بھارت میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہونے کے بھی وعدے کئے گئے لیکن بی جے پی کے امیت شاہ و دیگر لیڈروں کی طرف سے واضح طور پر اس عزم کا اظہا رکیا جاتارہا کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر ہندوئوں کی بڑی آرزو ہے اور یہ ہر حال میں تعمیر کیاجائے گا۔

ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی نے انتخابات سے قبل اپنے جس منشور کا اعلان کیا اس کا ایک نعرہ”ایک بھارت، عظیم بھارت” تھا اوراس منشور میں بھی بابری مسجدکی جگہ رام مندر کی تعمیر کااعلان شامل تھا۔یعنی بی جے پی کی طرف سے یہ دوہری پالیسی تھی جو اختیا رکی گئی۔ ایک طرف مودی مسلمانوں کو لبھانے کی کوشش کرتے رہے اوربابری مسجد کی جگہ قائم عارضی رام مندر میں پوجا کیلئے بھی نہیں گئے جس کی تعمیر کی بحث چھیڑ کر وہ ہمیشہ انتخابات کا آغاز کر تے رہے تو دوسری جانب امیت شاہ و دیگر ہرزہ سرائی کر کے ہندوئوں کے جذبات بھڑکاتے رہے۔

بعض دانشور یہ سمجھتے تھے کہ مودی نے گجرات فسادات سے بہت کچھ سیکھا ہے اورحالات کے ساتھ ساتھ انہوںنے اپنے آپ کو بہت زیادہ تبدیل کر لیا ہے اس لئے اقتدار میں آنے کے بعد بھی ان کے اندر یہ تبدیلی برقرار رہے گی لیکن یہ سوچ درست نہیں ہے۔اس کی واضح مثال مودی کے وزیر اعظم بننے اور بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد جگہ جگہ بھڑکنے والے فسادات ہیں جن میں بڑی تعداد میں مسلمان اب تک شہیدوزخمی ہو چکے ہیں۔ اب جوں جوں وقت گزررہا ہے مودی سرکار پر بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کیلئے ہندو انتہا پسندوں کا دبائو بڑھتا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ مودی اگرچہ کھل کر ابھی تک اس حوالہ سے سامنے نہیں آئے مگر درپردہ انہوں نے رام مندر کی تعمیر کیلئے مذموم کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔

اس مقصد کیلئے کانچی پیٹھ کے شنکر اچاریہ جو ہندوئوں کے معروف مذہبی پیشوا ہیں اور بھارتی وزیر اعظم کے بہت قریبی سمجھے جاتے ہیں انہیں یہ مشن سونپا گیا ہے کہ وہ مسلم علما ء کرام سے ملاقاتیں کر کے انہیں اس فارمولہ پر راضی کرنے کی کوشش کریں کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈسپریم کورٹ میں دائر مقدمہ واپس لے اور ہندوئوں کو اسی جگہ رام مندر کی تعمیر کرنے کی اجازت دے جہاں پہلے بابری مسجد تھی’ اس کے بدلہ میں وہ مسجد کی تعمیر کیلئے مندر کی جگہ سے دور اجودھیا میں ہی نہ صرف زمین دیں گے بلکہ اس مقصد کی خاطر وہ اپنے سروں پر اینٹیں اٹھانے کو بھی تیا رہیں۔

شنکر اچاریہ کے ماضی کا جائزہ لیا جائے تو یہ ان کی پہلی کوشش نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی اپنی ہندوئوانہ مذہبی حیثیت کاناجائز استعمال کرکے مسلمانوں پر بابری مسجدسے دستبردار ہونے کیلئے دبائو ڈالتے رہے ہیں تاکہ وہاں وشواہندو پریشد کے منصوبہ کے مطابق ایک بڑا رام مندرتعمیر کیاجاسکے۔ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموںنے ہر بار ان کے مطالبات کوٹھکرایا مگر اس کے باوجود ہندو انتہا پسند مختلف انداز میں اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ہندوئوں کے مذہبی پیشواشنکر اچاریہ میں اسلام و مسلمانوں سے متعلق تعصب اس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے کہ وہ نا صرف بابری مسجد بلکہ بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ سمیت تین ہزار سے زائد مساجد جن کے بارے میں ہندوانتہا پسند ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں کہ وہ مندروں کے ملبہ پر تعمیر کی گئی ہیں’سے دستبردار ہونے کے مشورے دیتے رہتے ہیں۔

اس مقصد کیلئے موصوف نے 2002ء میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو ایک خط بھی لکھا تھا۔بعد ازاں 2005ء میں بھی ایسی ہی کوشش کی گئی مگر مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ نے ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے پیش کر دہ تمام تجاویر کو رد کر دیا تھا۔ اب ایک بار پھر جب نریندر مودی اقتدار میں ہیں تو ان کے کارخاص پوری طرح حرکت میں ہیں اور اندرون خانہ مسلم علماء کرام پر دبائو ڈالنے کی سازشیں کی جارہی ہیں لیکن اللہ کے فضل وکرم سے ابھی تک شنکر اچاریہ جیسے ہندو لیڈروں کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ان کی پوری کوشش کے باوجودمسلم علمائے کرام نے سرے سے ان کے ساتھ ملنے سے ہی انکار کردیا اور واضح طور پر کہا ہے کہ بابری مسجد کے مسئلہ پر وہ اپنی جانیں تو قربان کر سکتے ہیں لیکن اس سلسلہ میں کوئی کمپرومائز نہیں کریں گے۔

شنکر اچاریہ کو صرف لکھنو کی عید گاہ کے خالد رشید فرنگی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے ۔ اس پر بھی مسلم تنظیموں، علماء کرام اور عوامی سطح پر شدید احتجاج کیا گیا جس کے فوری بعد خالد فرنگی کو وضاحت کرنا پڑی کہ ان کی ملاقات ذاتی حیثیت میں تھی اور اس کا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔بہرحال بھارتی مسلمانوںکے نزدیک اس ملاقات کی اہمیت محض سستی شہرت کے حصول کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ جوں جوں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی یہ خفیہ سازشیں کھل کر سامنے آرہی ہیں مسلمانوں میں اشتعال بڑھتا جارہا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ ایک طرف مودی بھارت میں انصاف کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں

Hindu Extremists

Hindu Extremists

تو دوسری جانب بابری مسجد تنازعہ کے حوالہ سے ہندوئوں کے متنازعہ مذہبی لیڈر شنکر اچاریہ کی خدمات حاصل کر کے خودذاتی طور پر فریق بنے ہوئے ہیں۔اس سے یہ بات ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئی ہے کہ نریندر مودی چاہے جتنا مرضی خود کو لبرل ظاہر کریں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ عملی طور پر آج بھی بھگوا دہشت گردی کو پروان چڑھا رہے ہیں اور ہندو انتہا پسندوں کی مکمل سرپرستی کی جارہی ہے۔مودی اور دیگر ہندو انتہا پسند لیڈر شاید یہ خیال کرتے ہوں کہ مسلمان بی جے پی کے اقتدار سے مرعوب ہو کر بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر پر راضی ہو جائیں گے مگر انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ محض ایک قطعہ زمین کا مسئلہ نہیں بلکہ بابری مسجد سے مسلمانوں کا مذہبی تشخص اور بنیادی حقوق وابستہ ہیں۔اس کے فیصلہ سے ہی دنیا کے سامنے یہ بات آئے گی

بھارت میں مسلمانوں کو ان کے مذہبی حقوق حاصل ہیں یا پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ چل رہا ہے۔مودی سرکار کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر رام مندر کی تعمیر جیسی مذموم کوششوں سے باز رہیں یہی وہ مذموم حرکتیں ہیں جن سے بھارتی معاشرے میں اشتعال پھیلتا ہے اور پھر ظلم میں پسے پرامن لوگ اپنی مساجدومدارس اور عزتوں و حقوق کے تحفظ کیلئے ہتھیا راٹھانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

Muslims

Muslims

بابری مسجد کی شہادت کو بیس سال بیت گئے ہیں۔ ابھی تک یہ مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور مسجد کی شہادت اوراس کے بعد ہزاروں مسلمانوں کو شہید کرنے والے درندے ناصرف کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں بلکہ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیںجس سے کمزور طبقات میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے۔مودی سرکار نے فسادات بھڑکانے اور مساجدومدارس کے تقدس کو پامال کرنے کا سلسلہ یونہی جاری رکھا تو عنقریب بھارت میں وہ طوفان اٹھے گا کہ پھر اسے روکنا ممکن نہیں رہے گا۔ جہاں تک بابری مسجدکی شہادت کامسئلہ ہے توبھارت سرکار کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ بھارتی مسلمان ان شاء اللہ کبھی اپنے اس موقف سے دستبردار نہیں ہوں گے اورہندو انتہا پسندوں کی جانب سے رام مندر کی تعمیرکی کوششیں کسی صورت کامیاب نہیں ہوں گی۔

تحریر: حبیب اللہ سلفی
برائے رابطہ: 0321-4289005