اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان میں بنی گالا تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ سب سے پہلے وزیراعظم عمران خان کا گھر ریگولرائز ہوگا، کیونکہ وہ ہی اس کیس کو لے کر عدالت آئے تھے۔
دوسری جانب عدالت عظمیٰ نے بنی گالہ میں عمارتوں کی ریگولرائزیشن کے لیے سیکریٹری داخلہ کی سربراہی میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کرنے کا بھی حکم دے دیا۔
کمیٹی میں چیئرمین کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)، سیکریٹری ہاؤسنگ، سیکریٹری لوکل گورنمنٹ اور سیکریٹری کلائمیٹ چینج بھی شامل ہوں گے، جو 10 دن میں رپورٹ پیش کرے گی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں بنی گالہ میں تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ بوٹینیکل گارڈن میں ایک نرسری بنائی گئی ہے، جہاں شہد کی مکھیاں پالی جا رہی ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ رپورٹ کا چوتھا حصہ راول جھیل میں آلودگی سے متعلق ہے اور 50 یونین کونسلز اور 59 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا سیوریج راول جھیل میں گرتا ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘ہم تو تحریک انصاف والوں کی کارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں، انہی لوگوں نے اس مسئلے کے لیے درخواست دائر کی تھی، اب یہ لوگ خود حکومت میں آگئے ہیں، ہم دیکھنا چاہتے ہیں یہ کیا کرتے ہیں’۔
ساتھ ہی چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل بابر اعوان سے استفسار کیا، ‘آپ لوگوں نے 50 دنوں میں کیا اقدامات کیے؟’
بابر اعوان نے بتایا کہ ‘آج کل شہریار آفریدی معاملات کو دیکھ رہے ہیں’۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘سب سے پہلا گھر عمران خان کا ریگولرائز ہوگا، اس کو سیاسی بیان نہ سمجھیں’۔
جسٹس ثاقب نثار کا مزید کہنا تھا کہ ‘عمران خان اس کیس میں درخواست گزار ہیں، سب سے پہلے عمران خان کو جرمانہ ادا کرنا ہوگا، لوگوں کو علم ہو عمران خان نے جرمانہ ادا کر دیا ہے، پھر باقی لوگوں سے عمارتیں ریگولرائز کرانے کو کہا جائے گا’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘ریگولرائزیشن کا مسئلہ حل ہونے تک نئی عمارتیں بنانے کی اجازت نہیں دیں گے’۔
ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں پانی اور ماحول صاف چاہیے، راول جھیل کی آلودگی کے معاملے کو الگ سے دیکھیں گے۔
بعدازاں عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت 29 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کر دی۔
بنی گالا تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے لیز کے قواعد پر پورا نہ اترنے والی کمپنیوں کو 10 روز میں بند کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ لیز کے قواعد و ضوابط پر پورا نہ اترنے والی کمپنیوں کو بند کردیا جائے اور چیئرمین سی ڈی اے غیر قانونی لیز سے متعلق رپورٹ دیں، جس کے بعد لیز کی زمین پر تعمیرات گرادی جائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘اسلام آباد میں جتنی بھی لیز دی گئی، وہ اقربا پروری پر دی گئی اور جان بوجھ کر لوگوں کو نوازا گیا، ممکن ہے ہم لیز کی رقم میں اضافہ کردیں’۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے لیز کا معاملہ 22 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کر دیا۔