بیورو کریسی کی پھرتیاں

Bureaucracy

Bureaucracy

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

ہر دور کی بیورو کریسی حکمرانوں کے کامیاب فارمولہ وزٹ کر نے کی چئمپین ہے کسی ایم این اے یا وزیر کو جب کبھی حکمران کے قریب ہو نے یا ذاتی کام نکلوانے کا دورہ پڑتا ہے یا علاقے میںاپنی ساکھ بٹھانے کا ابال آتا ہے تو وہ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ صاحب کا اپنے علاقے یا محکمے کا دورہ کر اتا ہے ‘ ایسے سارے دورے سرکاری خزانے پر بوجھ ہوتے ہیں اِن سے عوام کو حقیقی فاعدہ حاصل کچھ نہیں ہوتا ‘ جب حکمران مشیروں وزیروں کے لشکر کے ساتھ اُس علاقے یا محکمے پر دھاوا بو لتے ہیں تو ایک طرف تو مخلوق خدا مبتلائے آزار اور بے زار ہو تی ہے دوسری طرف سرکاری خزانے پر بھی غیر ضروری بو جھ پڑتا ہے ہماری بیورو کریسی ایسے ڈراموں کی بہت ماہر ہے یہ الفاظ کی جادوگری کا آرٹ خوب جانتی ہے اپنی انہی پھرتیوں چالاکیوں کی وجہ سے یہ ہر دور کے حکمران کی آنکھ کا تارا ہوتی ہے۔

افسر شاہی کے فرعون جب اپنے دفتروں میںہو تے ہیں تو مجال سے کو ئی ضرورت مند لاچار مصیبت زدہ اِن تک رسائی پاسکے اور اگر حکمران اِن کے علاقے میں آجائیں تو یہ میراثی بھانڈ بن کر پہلے تو اپنے علاقے کو صابن سے دھوتے ہیں چوناکیری بچھاتے ہیں اور تو اور لاہور ریلوے اسٹیشن کو اگر آپ عام دنوں میں دیکھ لیں توگندگی کے ڈھیروں کو دیکھ کر عام آدمی کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے لیکن جب کبھی وزیر صاحب یاوزیر اعظم لاہور کے ریلوے اسٹیشن کا دورہ کر یں تو لگتا ہے یہ لاہور نہیں پیرس کا ریلوے اسٹیشن ہے صاف چمکتا دمکتا روشنیوں کے فوارے پھوٹتے ہو ئے چونا پینٹ سے آرستہ دیواریں نہ خوانچہ نہ ریڑھا نہ چھلکا نہ کاغذ نہ ردی کے ڈھیر نہ کیچڑ نہ کچرا ‘ حیران کن بات یہ سامنے آئی ہے کہ یہ صفائی ستھرائی کا سارا کام چند گھنٹوں میں کر لیا جاتا ہے چونا لگا کہ اِس خوبصورتی سے داغدار جگہوں کو ڈھانپا جاتا ہے کہ لگتا ہے جنون کی بارات نے کر شماتی طور پر یہ کام کیا ہے وزیر اعظم صفائی ستھرائی دیکھ کر اپنی ہی مدح سرائی میںمست ہو جاتے ہیں کہ اُن کے آنے سے لاہور اسٹیشن کی سالوں کی گندگی صاف ہوگئی ‘ سب اچھی طرح جانتے ہیں پلیٹ فارم پر گندگی کے ڈھیر خوانچوں کی یلغار قلیوں کی مار دھاڑ اور ریلوے ملازمین کی فرعونیت جو وہ غریب عوام کے ساتھ کر تے ہیں ہما ری بیوری کریسی اِس کام کی چیپمئین بن چکی ہے یہاں تک کہ اگر کو ئی غیر ملکی سربراہ پاکستان کا دورہ کر ے تو وہ خصوصی طو رپر لاہور کرا چی کی سڑکوں کی صفائی کی بات کر تا ہے یہاں بھی افسروں کی کاریگری نظر آتی ہے ظاہر ہے غیر ملکی سربراہ شالامار باغ با دشاہی مسجد مال روڈ یا کراچی میں گلستان فاطمہ بنی تو جاتا ہے غیر ملکی مہمان گو رنر ہائو س کے سر سبز و شاداب وسیع و عریض لان چونا لگے گملے دیو قامت درخت گلستان فاطمہ کی مہکتی روشنیں شالا مار باغ کے پہاڑی جھرنوں جیسے ابلتے فوارے مال روڈ کی ٹھنڈی چھائوں سٹیٹ گیسٹ کی مخملیں سبزہ پی سی آواری ہو ٹل کے بر قی قمقموں کی رنگ و نور کی برسات گلبرگ ڈیفنس کا شاہی دربار ‘ بیدیاں روڈ یا برکی روڈ کا سینکڑوں کنال پر مشتمل فارم ہائوس جب دیکھے گا تو وہ ظاہری مناطر پر ہی تو جہ دے گا پس منظر کی تاریکیاں اُسے کہاں نظر آئیں گی۔

جب ہما رے حکمران تو خوب جانتے ہیں کچی بستیوں کی تعفن بکھیرتی بد بو دار ہوائیں بیماریاں پھیلاتی گندگی سے بھری ہوئی اوپن نالیاں تازہ ہوا سے محروم گلیاں اور بیوہ کی مانگ کی طرح اجڑی بستیاں لاہور کے پسماندہ علاقے ڈبن پو رہ چائینا سکیم مصری شاہ وسن پو رہ کھاڑک بلال گنج ٹھوکر شہر کے اندر پرانے گائوں جہاں پر کپڑے لتھڑتی کیچڑ کا ناک سے ٹکراتی بد بو دار ہو ائیں وہاں کے مکینوں کی زندگیاں کس طرح عذاب بنائی ہوئی ہیں حکمرانوں کو افسروں کی فوج کے بغیر عوام کے ساتھ اِن علاقوں کا دورہ کر نا چاہیے تو ہر علاقے اور محکمے کا اصل چہرہ سامنے آجائے گا ‘ افسروں کے حصار یا نقشوں کے سحر میں نہیں اور اگر وزیر اعظم صاحب چارٹوں کی مدد سے بریفنگ لیں سکرینوں پر اعداد و شمار کے بادلوں میں گم ہو جائیں تصویروں کے زاویوں اور روشنیوں پر بھروسہ کریں نقشوں کی بھول بھلیوں کے جادو پر اعتبار کریں چاپلوس افسروں کی مبالغہ آمیز ی پر بھروسہ کریں تو پھر ریلوے اسٹیشن کی گندگی نظر نہیں آئے گہ بلکہ ریلوے اسٹیشن جنت نظر آئے گا ہر محکمہ ترقی یافتہ روشن نظر آئے گا وزیر اعظم صاحب کو معلوم ہو نا چاہیے گورنر ہائوس وزیر اعلیٰ ہاوس کی شادابی ہزاروں انسانوں کی اداسی کا نتیجہ ہے وزیر اعلیٰ ہائوس کے قصرِ مرمریں کے پیچھے ہزاروں غریبوں کے نوح چھپے ہیں وزیر اعلیٰ گورنر ہائوس کے برقی قمقمے روشن کر نے کے لیے کئی غریبوں کے گھر تاریکی میں ڈوبے ہیں آجکل وزیر اعظم بھی لاہور کے دورے پر آئے ہو ئے ہیں وزیر اعظم صاحب سب جانتے ہیں کہ آپ کا خاندانی پس منظر کوئی سرمایہ دارانہ جاگیر دارانہ نہیں ہے۔

آپ لاہور کی اِس مٹی کے ہیں یہاں کی گلیوں بازاروں محلوں میں ہی پروان بھی چڑھے ہیں آپ بیوروکریسی کی چالاکیوں پھرتیوں سے بھی خوب واقف ہیں اِن کے جھانسے میںبلکل نہ آئیں ورنہ یہ ماضی کی طرح آپ کو بھی فارمولا وزٹ کر ادیں گے پہلے سے طے شدہ وزٹ جس کا روٹ پہلے سے طے ہو گا معائنہ کے لیے جگہیں فائلیں اور نقشے بھی پہلے سے تیار ہو نگے ‘ باتیں اور نعرے مارنے والے سوال کر نے والے بھی پہلے سے موجود اور تیار شدہ ہو نگے رٹی رٹائی باتیں جن میں سیکنڈ منٹ کا حساب تیار ہو گا اگر آپ حقیقی عوامی مسائل کا ادراک اور حل کر نا چاہتے ہیں تو خود جاکر رمضان بازاروں کا وزٹ کریں اگر سیکورٹی کی وجہ سے خود وزٹ نہیں کر سکتے تو اپنے چند قابل اعتبار لوگوں کورمضان بازاروں میں بھیجیں وہاں کے حالات عوام کی کسمپرسی غربت لاچارگی دیکھ کر آپ کی چیخیں نکل جائیں گی آپ آرام سے سو نہیں پائیں گے کس طرح غریب ماں اپنے بچوں کو شربت پلانے کے لیے گھنٹوں آگ برساتے سورج کے نیچے قطار میں لگ کر صرف ایک کلو چینی چند لیموں حاصل کر تی ہے جو صرف دو دن کے لیے کافی ہے دو دن بعد بو ڑھی ماں پھر کلو چینی کی قطار میں لگی ہو گی اُس بے چارے باپ کی بے بسی ندامت دیکھیں جو بیچارہ رمضان بازار یا فروٹ کی ریڑھی پر پھلوں کے آسمان کو چھوتے ریٹ پتہ کر تاہے پھر دو کیلے دو امرود ایک خربو زہ گھر لے جاتا ہے تا کہ بچوں کی فروٹ چاٹ کی ڈیمانڈپو ری کر سکے اُس سفید پوش بابو کلرک مزدور کی حالت نو ٹ کریں جو یو ٹیلیٹی سٹور رمضان بازارا کا رخ کر تا ہے لیکن وہاں پر ضروریات زندگی کا بنیادی سامان نہیں ہوتا جو تھا وہ لوگ لے گئے اب سائیں سائیں کر تے سٹور اور رمضان بازار جہاں پر سامان ہی نہیں ہے ان مسجدوں کا رخ کریں جہاں پر محلے دار افطاری کا انتظام کر تے ہیں۔

لوگ وہاں پر پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں یا سڑک کنار ے مخیر حضرات دستر خوانوں کا نظارہ کریں جہاں پر غریب لوگ گھنٹوں پہلے آکر شربت اور چند کھجوروں کے لیے بیٹھ جاتے ہیں جن جگہوں پر آپ جاتے ہیں وہاں آراستہ قالین بچھا کر خزانے پر بو جھ ڈالاجاتا ہے آپ کے راستے کے اطراف میںپھولوں کے گملے عوام کے خزانے پر بوجھ ہیں جس جگہ آپ جاتے ہیں اُس جگہ کو چند گھنٹوں کے لیے سنوار کر دلہن بنایا جا تا ہے چند گھنٹوں کے لیے یہ فضول خر چی عوام کے پیسے سے ہو تی ہے جو عوام پر خرچ کی جائے تو بہتر ہے پھر جتنا پیسا آپ کی آمد پر لگا یا جاتا ہے اُس سے دوگنا افسران کی جیبوں میں چلا جاتا ہے اگر آپ تاریخ میں امر ہو نا چاہتے ہیں تو محمود غزنوی کی طرح منڈھا سا مار کر یا شیر شاہ سوری کی طرح صافہ لپیٹ کر عوامی جگہوں کا دورہ کریں تو ہر علاقے محکمے کا اصل چہرہ سامنے آجائے گا اگر آپ بھی بیورو کریسی کے چاپلوسی کے حصار میں قید رہے تو کل آپ بھی جیل کے پیچھے عدالتوں کے چکر یا دوبئی کے ہسپتا ل کے بیڈ پر پیکر لاچار بن کر اپنے با ل نوچیں گے حضرت عمر نے کیا خوب کہا تھا اگر عراق کی دلدل میں کسی گھوڑے کا پائوں پھسل گیا تو اُس کا بھی ذمہ دار میں ہوں ۔یہاں تو ہر روز غریب عوام غربت کے غار میں زندگی کی بازی ہار رہے ہیں۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org