تحریر: چوہدری غلام غوث راقم سول سیکرٹریٹ میں اپنے ایک دوست بیوروکریٹ کے آفس میں بیٹھا تھا کہ اس دوران میرے دوست کو درجہ چہارم کے ایک ادنیٰ سرکاری ملازم کے خلاف پیڈا ایکٹ 2006کے تحت حتمی شنوائی کے شوکاز نوٹس کی کارروائی سرانجام دینی تھی میں نے اجازت چاہی مگر اُنہوں نے کہا کہ انسانی حقوق سے متعلقہ معاملہ ہے آپ بھی تشریف رکھیں۔ اس دوران محکمانہ نمائندہ آفیسر کے ساتھ مذکورہ اہلکار جس پر سنگل چوری کا الزام تھا کمرے میں حاضر ہو گئے کہانی یہ تھی کہ اس اہلکار کا ایک نوجوان بیٹا نشہ کرنے کا عادی تھا جبکہ دوسرا نوجوان بیٹا ذہنی طور پر معذور تھا جس کو اُس نے سرکاری ہسپتال کے شعبہ امراضِ دماغ و نفسیات میں داخل کروایا ہوا تھا اسے جب ہسپتال سے فارغ کیا گیا تو ماہر ڈاکٹر نے خود اس کا معائنہ کیا اور تجویز کیا کہ اس نوجوان کو اپنے گھر میں پندرہ روز کے لیے سنگل سے باندھ کر تجویز کردہ سکون آور ادویات دینی ہیں اُس وقت مہینے کی 27 تاریخ تھی۔ والد کے پاس دوائیاں یا سنگل خریدنے میں سے ایک آپشن موجود تھی اُس نے پیسوں سے ادویات خرید لیں جبکہ سنگل کے لیے اُس نے منصوبہ بندی کر لی کہ وہ دفتر میں گاڑیوں کے سٹینڈ کے باہر لگے سنگل کو چوری کر لے گا۔
منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اُس نے رات کے اندھیرے میں جان جوکھوں میں ڈال کر سنگل چوری کرنے کی واردات ڈال دی اور گھر جا کر بیٹے کو سنگل سے باندھ دیا اگلے ہی روز ڈیوٹی پر مامور سیکورٹی اہلکاروں نے دفتر میں سنگل غائب ہونے کی رپورٹ کر دی سیکورٹی کیمروں کو چیک کیا گیا ملزم چور کی واضح نشاندہی ہو گئی اُسے بلا کر پوچھا گیا تو اُس نے صاف انکار کر دیا جب اُسے وڈیو دکھائی گئی تو اعترافِ جرم کرتے ہوئے اگلے ہی روز اُس نے سنگل لا کر دے دیا۔ اس ساری واردات پر اُس کے خلاف مروّجہ انضباطی قانون پیڈا ایکٹ 2006 کے تحت شوکاز اور نوکری سے برخاستگی کی کارروائی شروع ہو گئی ساری کہانی سننے کے بعد میرے دوست بیوروکریٹ نے کہا کہ اس پر آپکی کیا رائے ہے میں نے کہا جناب ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق کے دورِ خلافت میں مدینہ منورّہ میں شدید قحط پڑ گیا تھا تو اعلیٰ پائے کے منتظم خلیفہ وقت نے چور کے چوری کرنے پر ہاتھ کاٹنے کی سزا معطل کرتے ہوئے حکم صادر فرمایا تھا کہ جب تک مدینہ منورّہ کے باسیوں کے گھر سبزہ اور اجناس نہیں آ جاتے چوری کی یہ سزا موقوف رہے گی مجھے اس کہانی کے بعد مُلک کے معروف صحافی کی کتاب میں لکھا گیا وہ واقعہ یاد آ گیا جو میں نے اپنے دوست سے شیئر کیا۔
واقعہ کے مطابق ایک سینئر ریٹائرڈ بیوروکریٹ نے بعد از ریٹائرمنٹ فرانس میں جا کر سرحدی گائوں کے قریب ایک چھوٹا سا مکان خرید کر سکونت اختیار کر لی اور وہاں پر مستقل رہائش پذیر ہونے کا منصوبہ بنا لیا جبکہ ذریعہ معاش کے طور پر ایک ملازمت بھی اختیار کر لی وہ مُلکی حالات سے دلبرداشتہ ہو چکے تھے۔ اُس وقت کے پاکستانی وزیرِ اعظم اُن کے دوست تھے وہ فرانس دورے پر گئے تو اُن کے گھر چلے گئے اُن سے اصرار شروع کر دیا کہ آپ کو پاکستان آنا چاہیئے میں آپ کے تجربے سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہوں آپ کو اہم ذمہ داری سونپنا چاہتا ہوںوہ وزیرِ اعظم کے اصرار کے سامنے بے بس ہو گئے اور کہاکہ میں آپ سے واپسی کی مشروط حامی بھرتا ہوں کہ مجھے فلاں محکمہ دیا جائے گا؟ وزیرِ اعظم نے ہاں کر دی۔ اُنہوں نے اپنی نوکری سے فوری استعفیٰ دیا دو روز بعد سامان پیک کیا اور مُلک میں واپس آ گئے۔ اُنہوں نے آتے ہی وزیرِ اعظم سے ملاقات کی ،وزیرِ اعظم نے اُن کو پوسٹنگ کا حکم دے دیا اور دو روز بعد اُن کو تقرّر نامہ موصول ہو گیا تقرّر نامہ پڑھ کر وہ حیران ہو گئے کہ اُن کو بالکل غیر متعلقہ محکمہ الاٹ کر دیا گیا تھا اور صوبہ سندھ میں دور دراز ایک محکمہ کا ڈائریکٹر جنرل لگا دیا گیا۔ اُنہوں نے فوری پرنسپل سیکرٹری برائے وزیرِ اعظم سے رابطہ کیا وہ پریشان ہو گئے جبکہ اس اطلاع کے بعد آرڈرز جاری کرنے والا جوائنٹ سیکرٹری انتہائی پریشان تھا کہ اُس روز وزیرِ اعظم نے پوسٹنگ کے دو آرڈرز جاری کیے تھے جبکہ غلط فہمی سے دونوں آرڈرز ایک دوسرے کے برعکس جاری ہو گئے۔
جوائنٹ سیکرٹری سمیت پرنسپل سیکرٹری نے اُن سے معذرت کی اور درخواست کی کہ اس کی اطلاع وزیرِ اعظم کو نہ کی جائے ورنہ ہمارا سروس کیریئر خطرے میں پڑ جائے گا اور حل تجویز کیا کہ ‘سر’ آپ وہاں جوائن کر لیں پانچ روز کے بعد آپ کو متعلقہ محکمے کے آرڈرز موصول ہو جائیں گے اُن کے احتجاج کرنے پر تمام آفیسرز منت سماجت پر اُتر آئے دوسرے دن اُنہوں نے جوائننگ دے دی آٹھویں دن اُن کو نئے محکمے کا تقرّر نامہ وصول ہوا۔ اُنہوں نے پانچ دن والے محکمے کو خیرباد کہا اور اگلا دن 12۔ اکتوبر تھا اسلام آباد پہنچے تو شام کو اُنہیں اطلاع ملی کہ فوج نے حکومت پر قبضہ کر لیا ہے اُنہوں نے اگلے روز سامان پیک کیا دس روزہ ایڈونچر کا خاتمہ ہوا اور وہ فرانس روانہ ہو گئے اب اس ایڈونچر کے پردے میں چھُپی کہانی شروع ہوتی ہے اور وہ بیوروکریٹ خود سوال کرتے ہیں کہ قدرت نے مجھے کیوں پاکستان بھجوایا تھا اور کس مشن کی تکمیل کے لیے؟وہ کہتے ہیں کہ میں نے جب اس غیر متعلقہ اور ناپسندیدہ محکمے کا چارج لیا تھا تو اسی سہہ پہر محکمے کا ایک بیمار اور بوڑھا ڈرائیور میرے پاس آیا اس نے آتے ہی مجھ سے پوچھا، صاحب آپ دوسرے مُلک سے آئے ہیںمیں نے اُسے گھور کر جواب دیا ”ہاں فرانس سے” ڈرائیور نے کانپتے ہوئے عرض کیا جناب آپ کو یہاں صرف میرے لیے بھجوایا گیا ہے میں نے اس سے وجہ پوچھی ، وہ دھیمے لہجے میں بولا! جناب پانچ دن بعد میری بیٹی کی شادی ہے اور میرے گھر میں پانی کے ایک گھڑے کے سوا کُچھ نہیں میں نے پچھلے صاحب کو مالی امداد کی درخواست دی تھی لیکن اس نے صاف انکار کر دیا تھا بلکہ کہا تھا کہ محکمہ آپ کے بچوں کی شادیاں کرنے کا ٹھیکیدار نہیں؟ میں نے بڑی سرکار سے اس کی شکایت کر دی لہذا وہ یہاں سے ٹرانسفر ہو گیا جس کے بعد میں نے بڑی سرکار سے درخواست کی آپ کسی باہر کے بندے کو میری داد رسی کے لیے بھجوائیں اس مُلک کے افسروں کے دل بہت تنگ ہیںبڑی سرکار نے مجھ سے وعدہ کیا ” وہ سکینہ کی بارات سے پہلے کسی نرم دل آفیسر کو یہاں بھجوا دیں گے” میں نے اس سے پوچھا تمہاری بڑی سرکار کون ہے اُس نے اُنگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور گلوگیر آواز میں بولا ”وہ ہم سب کی بڑی سرکار ہیں” وہ مجھے ایک دلچسپ کردار لگا میں نے اس سے کہا تم ثابت کرو مجھے یہاں صرف تمہارے لیے بھجوایا گیا ہے ” وہ مسکرایا اور عاجزانہ انداز میں مخاطب ہوا” آپ مجھے صرف ایک سوال کا جواب دے دیں میں ثابت کر دوں گا میں نے کہا ! پوچھو، تو وہ بولا ” کیا آپ یہاں اپنی مرضی سے آئے ہیں” میں نے انکار میں سر ہلا دیا وہ بولا جناب آپ کا انکار میرے دعوے کا ثبوت ہے میں نے تھوڑا توقف کیا !سوچا تو وہ ڈرائیور مجھے ٹھیک لگا میں نے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کو بُلایا اور اسی وقت اس ڈرائیور کو محکمے کے فنڈ سے تین لاکھ روپے دینے کا حکم دے دیا۔بعد ازاں میں نے بنک مینیجر کو فون کر کے جلد ادائیگی کی درخواست بھی کر دی۔
اگلے روز میں نے میٹنگ بُلائی سارے سٹاف کو حُکم دیا بارات کے استقبال کے لیے محکمہ کے سرسبز لان میں خوبصورت شامیانہ لگایا جائے گا اور بارات کو کھانا محکمہ کی طرف سے دیا جائے گا میں نے مزید حُکم دیا ہم سب بارات کا استقبال کریں گے اور پورا محکمہ مل کر ڈرائیور کی بیٹی کو رُخصت کرے گا میرے احکامات پر عمل درآمد شروع ہو گیا ڈرائیور کو جہیز کے لیے رقم مل گئی ہم لوگوں نے دفتر کے لان میں شامیانے لگوائے لان میں چراغاں کیا ، بارات کے لیے کھانا پکوایا۔ سب نے مل کر بارات کا شاندار استقبال کیا پورے محکمے نے دُولہے دُلہن کو سلامیاں دیں۔دُعائوں اور پیار کے ساتھ بچی کو رُخصت کیا اگلی صبح وہاں میرا آخری دن تھا میں دفتر آیا تو پتہ چلا فجر کی نماز کے دوران ڈرائیور کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ سجدے کے عالم میں انتقال کر گیا میں نے اس کا جنازہ پڑھا کراچی سے اسلام آباد گیا اور اسلام آباد سے واپسی فرانس روانہ ہو گیا۔ مجھے صرف اُس ڈرائیور کے لیے پاکستان بھجوایا گیا تھا میری جاب صرف پانچ دن تک محدود تھی جوں ہی میرا مشن پایہء تکمیل تک پہنچا میں واپس فرانس آ گیا اور کہانی اختتام کو پہنچی ۔ میں نے اپنے نوجوان دوست بیوروکریٹ سے کہا ہم سب بڑی سرکار کے مُہرے ہیں ہمیں بڑی سرکار کبھی کسی ڈرائیور، کبھی کسی مالی، کبھی کسی چوکیدار، کبھی کسی ماشکی، کبھی کسی چپڑاسی، کبھی کسی خاکروب اور کبھی کسی خانسامے کے لیے دائیں بائیں اور آگے پیچھے کرتی رہتی ہے اور ہم نہ جانتے ہوئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے حصے کی خدمت سرانجام دیتے رہتے ہیں جب ہمارا کام ختم ہو جاتا ہے تو بڑی سرکار ہمیں ریٹائرڈ کر دیتی ہے پھر کیوں نہ ہم خوش دلی سے خلوصِ نیت کے ساتھ کسی کی بھلائی کا ارادہ کر لیں نیک ارادے کا بھی اجر عطا ہوتا ہے کیونکہ اس میں ریاکاری کا شائبہ نہیں ہوتا، اُنہوں نے میری بات سُن کر کہا بے شک بڑی سرکار کی خوشنودی ہی ہر وقت ہمارے پیشِ نظر رہنی چاہیئے اسی میں ہی ہماری دائمی کامیابی اور بقا ہے۔