تحریر : مرزا روحیل بیگ برکس(BRICS) تیزی سے ترقی کرنے والے پانچ ممالک پر مبنی ایک اقتصادی معاہدہ ہے۔ جس کا نام اس کے رکن ممالک برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ کے ناموں کا مخفف ہے۔ اس تنظیم کا مقصد اقتصادی تعاون اور ترقی ہے۔ یہ پانچوں ممالک عالمی معیشت کے چالیس فیصد حصہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ BRICS یورپی یونین کی طرز پر ایک تنظیم بننا چاہتی ہے۔ چین کے شمالی شہر شیامین میں برکس ممالک کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں براعظم ایشیا میں سلامتی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اور تشدد کی لہر کا ذمہ دار افغان طالبان، داعش، القاعدہ، ایسٹرن ترکمانستان، اسلامک موومنٹ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ، جیش محمد، تحریک طالبان پاکستان اور حزب التحریر کو قرار دیا گیا۔
برکس ممالک نے دوہرا معیار اپناتے ہوئے افغان عوام سے تو ہمدردی کی لیکن مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور میانمار کی فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ برکس اجلاس ایسے موقع پر ہو رہا تھا جب میانمار میں مسلمان بچوں، عورتوں، بزرگوں کو تہ تیغ کیا جا رہا ہے۔ ان کے گھروں کو جلایا جا رہا ہے۔ قریب 90 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان ہجرت کر کے بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ نسل کشی کے اس کھیل پر برکس ممالک نے ایک لفظ بولنا بھی گوارہ نہ کیا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کے طاقتور لوگوں کو صرف اپنا مفاد عزیز ہے۔ برکس اعلامیہ میں تعصب کی بو آتی ہے کیونکہ پاکستان پہلے ہی لشکر طیبہ اور جیش محمد کو کالعدم قرار دے چکا ہے۔ گزشتہ برس برکس کا اجلاس بھارت میں منعقد ہوا تھا۔ بھارت کی گزشتہ برس بھی شدید خواہش تھی کہ ان تنظیموں کا نام اعلامیہ میں شامل کیا جائے۔ لیکن چین کی مخالفت کی وجہ سے ان تنظیموں کا نام اس اعلامیے میں شامل نہیں ہو سکا تھا۔انڈیا کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو انٹرنیشنل فورمز پر تنہا کیا جائیاس بار وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان میں جن لوگوں کی خواہش ہے کہ چین دہشتگردی کے حوالے سے پاکستان کی حکمت عملی اور پالیسیوں کا ساتھ دیتا رہے گا برکس اعلامیے کے بعد ان کی آنکھیں کھل جانی چاہیئں۔ گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرے۔
افسوسناک بات ہے کہ پاکستان خود دہشتگردی کا شکار ہے اور امریکہ پاکستان کو دہشت گردوں کی حمایت کرنے والا ملک سمجھتا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ 16 برسوں سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 60 ہزارسے زائد عام شہری اور 10 ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکاروں کی قربانی دی ہے۔ امریکہ کے اس موقف کے بعد پاکستان نے دوست ممالک سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن پاکستان کے دوست ملک چین کی جانب سے برکس اعلامیہ ایک پیغام ہے کہ وہ کب تک پاکستان کے موقف کی ہر فورم پر تائید کرتا رہے گا۔
یہ بات مدنظر رکھنی چاہیئے کہ فارن پالیسی میں نہ تو کوئی مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ ہی مستقل دشمن۔ صرف ایک چیز مشترک ہوتی ہے اور وہ ہے مفادات۔ دہشتگردی جیسا کینسر راتوں رات پیدا نہیں ہوا۔ نائن الیون سے پہلے پاکستان میں نہ تو خود کش حملے ہوتے تھے اور نہ ہی ڈرون حملے۔ دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں امریکہ کا اتحادی بن کر پاکستان نے بھاری قیمت چکائی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا چاہیئے۔ تاکہ دنیا کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ ان حالات میں سیاسی و عسکری قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیئے۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اگر خاجہ پالیسی کو بہتر نہ کیا گیا تو اسی طرح چیزیں گھوم کر واپس آتی رہیں گی۔ بدقسمتی سے گزشتہ 70 سال میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کبھی بھی آزادانہ نہیں بن سکی۔ برکس اعلامیے کا یوں سامنے آنا دراصل ہماری کمزور خارجہ پالیسی کا شاخسانہ ہے۔ حکومت کو چاہیئے اس حوالے سے موثر حکمت عملی اختیار کر کے دوست ممالک کو اعتماد میں لے اور اصل موقف ان تک پہنچایا جانا چاہیئے۔