تحریر : علی عمران شاہین یہ میانمار (برما) کا صوبہ راکھین ہے۔ یہ بنگلہ دیش کی سرحد کے ساتھ واقع ہے لیکن اسے بنگلہ دیش سے ایک دریا علیحدہ کرتا ہے جس کا نام ناف ہے۔ راکھین کا چند سال پہلے تک نام ارکان تھا جسے اراکان بھی کہا جاتا تھا۔ یہ نام یہاں کے باسیوں نے اسے ارکان اسلام کی نسبت سے دیا تھا کہ یہاں کے باسی مسلمان برائے نام نہیں بلکہ ہر لحاظ سے عملاً اسلام کے شیدائی ہیں۔ یہاں ان کی آبادی 15 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہ دنیا کی واحد انسانی آبادی ہے جس کے پاس کسی ملک کی شہریت نہیں۔ یہ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ رہتے تو میانمار (برما) میں ہیں لیکن ملک کے اندر سفر نہیں کر سکتے، بلکہ اپنے گائوں سے دوسرے گائوں نہیں جا سکتے۔ یہاں کوئی سکول نہیں، علاج معالجے کی کوئی سہولت نہیں۔ہ لوگ سمندر کنارے، جنگلاتی علاقے میں گھاس پھونس کی جھونپڑیاں بنا کر رہتے ہیں۔
لکڑیاں جوڑ کر بوسیدہ کمزور کشتیاں بناتے ، سمندر سے مچھلیاں پکڑتے ،انہیں ہی کھاتے اور کچھ بیچ کر زندگی کی سانسیں پوری کرتے ہیں۔ کوئی جتنا بیمار ہو جائے جنگلی جڑی بوٹیوں کے سوا کوئی دوا نہیں، سوایڑیاں رگڑتے موت کی وادی میں اتر جانا ہی ان کا مقدر ہے۔ کسی کو پائوں میں زندگی بھر جوتا کم ہی نصیب ہوتا ہے۔ کوئی کپڑا کہیں سے ایک بار پہننے کو مل جائے وہ جسم سے گل سڑ کر ہی اترتا ہے کہ دوسرا کپڑا کسی خوش قسمت کو ملے تو ملے وگرنہ یہی کل کائنات ہے۔ اس سب کے باوجود اسلام سے محبت اس قدر ہے کہ سبھی لوگ نمازی ہیں۔ بیشتر کے چہرے پر داڑھی ہے ۔ یہ خود اور ان کے بچے کچھ اور پڑھ سکیں نہ پڑھ سکیں ، قرآن سبھی پڑھ سکتے ہیں۔ انہیں جیسے اور جہاں سے ممکن ہو بس ایک ہی کتاب لانے کی جستجو ہوتی ہے اور وہ قرآن ہے۔ یہ اپنی ساری توانائی اگر کسی عمارت کو بنانے پر صرف کرتے ہیں تو وہ مسجد ہے۔ اس سب کے بیچ ان کی زندگی یونہی کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگتے رینگتے گزر جاتی ہے۔ اگر کوئی راہ فرار اختیار کرے تواس کا بوسیدہ جسم اور مردہ ہڈیاں سمندری حیوانات کی خوراک بن جاتی ہیں۔
بنگلہ دیش انہیں گولیوں کے نشانے پر رکھتا ہے اور دریائے ناف اور خلیج بنگال ان کے جسم میں دوڑتے خون کے چند قطروں سے رنگین کیا ہوں، یہ اس کے بغیر ہی مارے جاتے ہیں۔ تھائی لینڈ پہنچ جائیں تو انسانی سمگلروں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں اور پھر ڈھور ڈنگروں کی مانند فروخت ہوتے ہیں۔ انہی دکھیاروں پر نئی قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ اس علاقے میں نجانے کیسے برمی فوج کے چند سپاہی قتل ہو گئے ، الزام انہی بے کسوں پر لگا اور پھر کیا تھا، فوج اپنے ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر، جنگی گاڑیاںاور ہر طرح کا سامان جنگ لے کر ان پر ٹوٹ پڑی۔ ہیلی کاپٹروں سے باقاعدہ گن پائوڈربکھیر کر یک لخت طوفانی آگ بھڑکا دی گئی اور پلک جھپکتے سینکڑوں بے کس زندہ جلا دیئے گے۔
Killing of Muslims in Burma
آسمان سے برستی آگ اورگولیوں کی بارش کے بیچ ہزاروں بے کس ننگے پائوں بھاگ رہے تھے۔ ماں باپ کو بچوں کا اور بھائیوں کو بہنوں کا ہوش نہیں تھا۔ بس اپنی اپنی جان کی فکر اور اس سرپٹ دوڑ میں آگے ایک بار پھر برمی فوج اور مقامی بودھ مت بدمعاش بندوقیں اور تلواریں لئے کھڑے تھے۔ جو نزدیک ہاتھ لگا، اسے کاٹ کر ٹکڑے کر دیئے گئے اور جو بھاگنے کو قدم اٹھاتا، گولیوں سے بھون دیا جاتا۔ باپ اپنے بچے سینے سے چمٹائے دم سادھے جھاڑیوں میں چھپا تھاکہ برمی فوج آ گئی۔ ان ظالموں نے تیز دھار چھرا باپ کے ہاتھ میں پکڑایا،کنپٹی پر بندوق رکھ کر بچے باپ کے پائوں میں گرا دیئے اور حکم دیا کہ اگر بچنا ہے تو اپنے ہاتھ سے اپنے بچے ذبح کر دو۔ باپ بچوں کو کیسے ذبح کرتا وہ تو خود بھی مارا گیا اور بچے بھی اس کے ساتھ اگلے سفر پر روانہ ہو گئے۔کتنی جگہ بچے ماں باپ کے پیچھے چھپے کہ اس پناہ میں شاید بچ جائیں۔بچوںکے سامنے دنیا میں یہی تو سب سے بڑی ڈھال ہوتی ہے لیکن یہ ڈھال یہاں ہر جگہ گولیوں سے مار گرائی گئی۔ یہاں دنیا کے کسی میڈیا کو جانے کی اجازت نہیں اور اگر اجازت مل بھی جائے تو دنیا کے میڈیا کے لئے تو یہ خبر خبر نہیں کہ اس میںصرف خون اور دھواں ہے۔برما کی حکومت کا اب کھلا اعلان ہے کہ وہ کسی مسلمان کو باقی نہیں رہنے دیں گے اور روکنے والا کون ہو سکتا ہے۔اس ملک پر سے تو بارک اوباما نے نام نہاد پابندیاں عین اس وقت ہٹائی تھیں جب یہاںپچھلی بار اس سے بھی برے حالات تھے۔ گویا امریکہ نے تو شاباش کا سرٹیفکیٹ عنایت کیا تھا کہ وہ خود جو دنیا بھر میںمسلمانوں کے اندھے قتل عام میں مصروف ہے۔
روئے زمین کی سب سے زیادہ غموں کی ماری روہنگیا قوم کہاں کہاں نہیں مار کھارہی ،کچھ ہی عرصہ پہلے ان میں سے چند سو بھارت پہنچے تو بھارت نے انہیں جموں کی طرف دھکیل تو دیا لیکن جموں سے آگے نہ بڑھنے دیا۔اسے اندازہ تھا کہ مقبوضہ وادی کے مسلمان چاہے جیسے بھی بدتر حالات سے دوچار ہوں، ان کے زخموں پر مرہم رکھنے والے بن جائیں گے۔ یہ عالم گواہ ہے کشمیریوں سے زیادہ دنیا میں انسانیت کا درد رکھنے والا بھی کوئی نہیں۔انہیں جموں کے نروال علاقے میں دھکیل دیا گیا جہاں خودہی گھاس پھونس کی جھونپڑیاں بنائیں اور زندگی کی سانسیں پوری کرنا شروع کیں۔
25 نومبر 2016ء کی نصف شب جب یہ سب یخ بستہ رات میںجیسے تیسے سوئے ہوئے تھے، انہیں چاروں طرف سے آگ نے گھیر لیا۔ ہوش آتے ہی سب بھاگ اٹھے لیکن پھر بھی ایک خاندان، 7 سالہ اور 2 سالہ بچی سمیت زندہ جل کر خاکستر ہوا۔151 جھگیاں راکھ کا ڈھیر بنیں۔ 400 مظلوم اب معمولی سائے سے محروم ہوئے لیکن نہیں زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ ان کی اس جھونپڑ بستی میں جو مسجد و مدرسہ بنا ہوا تھاوہ سینکڑوں قرآنی نسخوں سمیت جل کر ختم ہو چکا ہے ۔آگ لگانے والوں نے انہیں ہی آتش زنی کا مرکز بنایا تھا۔
زندہ لاش بنے انسانوں کی دنیا میں یوں آگ سے جل مرنے والے اگر آج ایک طرف یہ برمی ہیں تو ایک آگ اسرائیل میں بھی بھڑک رہی ہے۔ 23 نومبر کو عالمی میڈیا پر خبر آنا شروع ہوئی کہ اسرائیلی شہر حیفہ میں اچانک آگ بھڑک اٹھی ہے جس نے حیفہ اور گردونواح کے پہاڑی و میدانی علاقوں میں جنگلات کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے۔ حیفہ سے ا سرائیلی یہودی بھاگنا شروع ہوئے تو اٹلی سے روس اور امریکہ تک صف ماتم بچھ گئی۔ ہر طرف سے اسرائیل کو امداد کی پیشکشیں ہوئیں تو ساتھ درجن بھر ملکوں سے ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر اور آگ بجھانے والا دیگر سامان اور عملہ بھی اسرائیل پہنچ گیا۔ امریکہ کا دنیا میں سب سے بڑا آگ بجھانے کے لئے بنایا گیا ہوائی جہاز سپر ٹینکر مسلسل پانی گرا رہا تھا۔
کئی ملکوں کے جہازوں سے پانی اور آگ بجھانے والا کیمیائی مواد پھینکا جا رہا تھا۔ایک عالم یہاں ساری توانائیاں صرف کئے ہوئے تھا کہ جیسے ہوآگ کوفوری بجھا دیا جائے۔ یہاں کوئی زندہ نہیں جلا لیکن کروڑوںغم سے نڈھال رہے۔ عالم اسلام کے زخموں پر سب سے پہلے آگے بڑھ کر مرہم رکھنے والا آج کا ترکی اسرائیل کی اس آگ بجھانے کیلئے بھی آگے آیا کہ شاید اس سے باقی دنیا کو کچھ شرم و حیا آ جائے ۔لیکن کوئی اس جانب سوچ کا دھارا بھی بدلنے کو تیار نہیں۔ سبھی متفق کہ ان کا نشانہ صرف اور صرف مسلمان ہی ہوں گے ،جنہیں مٹانے کو یہ سبھی ایک ہیں لیکن آخر عالم اسلام کب ہوش میں آئے گا اور ذلتوں سے نجات کا واحد راستہ جہاد فی سبیل اللہ اپنائے گا۔