تحریر : عمران چنگیزی اللہ کا شکر ہے کہ برما(میانمار) میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کیخلاف سوشل میڈیا پرچلائی جانے والی شعوری مہم ‘پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اور اب عالمی ذرائع ابلاغ میں برمی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور وحشت ناک قتل عام کیخلاف آواز اٹھنی شروع ہوگئی ہے جو اس بات کا عندیہ ہے کہ اللہ نے اگر چاہا تو نہ صرف دنیا کے مسلمانوں کا جذبہ ایمانی جاگ جائے گا بلکہ مسلم ریاستوں کے حکمرانوں کے سوئے ضمیر بھی بیدار ہوجائیں گے اور 36ملکی اسلامی فوج بھی امریکی مفادات کے تحفظ کی بجائے امت محمدی کے مفادو تحفظ کی نگہبان و امین بن جائے گی گو یہ محض خوش گمانی ہے مگر عالم اسلام کو دعا کرنی چاہئے کہ اللہ ہماری اس خوش گمانی کو قالب حقیقت میں ڈھال دے کیونکہ برما میں جو کچھ ہورہا ہے وہ صرف مسلمانوں کا ہی نہیں بلکہ ہر مذہب ‘ ہرمسلک ‘ ہرفرقے اورہر علاقے سے تعلق رکھنے والے انسان کا دل دہلادینے کیلئے کافی ہے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا کہ ایک عام انسان کبھی اس قدر ظالم بھی ہوسکتا ہے بلا کسی وجہ و سبب محض مذہبی تضاد کی بنیاد پردوسرے انسانوں کا بہیمانہ قتل عام اور مخصوص طبقے کی نسل کشی کرنے لگے مگر ایسا ہورہا ہے۔
برمامیں روہنگیا نسل کے مسلمان مردوں ‘ عورتوں اور بچوں کو قتل کرکے ان کی نسل کشی ہی نہیں کی جارہی ہے بلکہ ان کی موت کو زیادہ سے زیادہ پر تشدد بنانے کیلئے ایسے ایسے طریقے اپنائے جارہے ہیں کہ انسانیت تو انسانیت‘ حیوانیت بھی انگشت بدنداں ہے ‘ ڈنڈوں ‘ لاتوں ‘ گھونسوں سے انسانوں کو جانوروں کی طرح پیٹا جارہا ہے ‘ پتھروں کی مدد سے انہیں کچلا جارہا ہے ‘ چھریوں کے وار سے بوٹی بوٹی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ‘ بستیوں کو انسانوں سمیت جلایا جارہا ہے ‘ زندہ انسانوں کو مردہ جانوروںکی طرح آگ پر سینکا جارہا ہے ‘انسانوں کا قیمہ اور بوٹیاں بناکر انسانی گوشت نوش فرمایا جارہا ہے ‘ عورتو ں کو برہنہ کرکے ان کے بچوں کے سامنے نچایا جارہا ہے ‘ بدترین جنسی وجسمانی تشدد کے علاوہ ان سے اجتماعی زیادتی بھی جارہی ہے اور سسکتی تڑپتی ‘زخموں سے چور ان خواتین کو میخوں کی مدد سے درختوں پر لٹکایا جارہا ہے ‘ معصوم بچوں کو قدموں تلے کچلا جارہا ہے اور ان سے وہ سلوک کیا جارہا ہے جو کسی بھی دورمیں کسی انسان یا کسی جانور نے بھی کسی دوسرے جانور کے ساتھ نہ کیا ہوگا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف برمی حکومت ہی ریاستی طاقت کے ذریعے برمامیں بسنے والے مسلمانوں کی نسل کشی نہیں کررہی بلکہ برمی فوج بھی برما میں بسنے والے مسلمانوں کے قتل عام میں تاتاری فوج پر سبقت لیجانے کی کوشش کررہی ہے اور برما کے عوام بھی مذہب کے نام پر اپنے ہی جیسے انسانو ں کو شکار کرنے میں مصروف ہیں۔
برما میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا ذمہ دار صرف برماکا حیوانیت پرست بدھسٹ مذہبی رہنما آشن ورادھو ہی نہیں ہے جس نے مذہبی منافرت کی آگ بھڑکاکر اس کے شعلوں کو اس قدر ہوا دی ہے کہ امن پسند بدھا کے ماننے والے اس کی انسانوں اور انسانیت سے محبت کی تعلیمات فراموش کرکے نفرت کے پیروکار بن بیٹھے ہیں اور حیوانیت و شیطانیت کو بھی مات دینے لگے ہیں بلکہ اس ظلم و حیوانیت کی ذمہ دار برما کی وزیر اعظم آنگ سانگ سوچی بھی ہے جس نے نفرت پر بند باندھنے کی بجائے اپنا اقتدار بچانے کیلئے اسے ریاستی قوت فراہم کی اور فوج کو وہ اختیارات دیئے جن کے تحت برمی فوج اپنے ہی ملک کے مخصوص طبقے یعنی مسلمانوں کو قتل کررہی ہے اور برما کے عوام اس قتل و غارت میں صرف تماشائی کا کردار ادا کرنے کی بجائے شریک و معاونت کار بھی بنے ہوئے ہیں یعنی بر ما کاہر انسان بلا تفریق صنف و عمر نفرت کی آبیاری اور دہشت و وحشت کے فروغ کیساتھ انسانیت کی تذلیل اور شیطانیت کی حقیقی تعریف میں مصروف ہے یہی وجہ ہے کہ نفرت و شیطانیت کو جو ننگا ناچ برما میں ہورہا ہے وہ اس سے قبل نہ تو قبل از مسیح کی تاریخ میں کہیں دکھائی دیتا ہے اور نہ بعد از مسیح کی تاریخ میں کہیں اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔
آنگ سانگ سوچی کی حکومتی چھتری تلے برما میںروہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اس بات کا ثبوت ہیں کہآنگ سانگ سوچی امن کی داعی نہیں بلکہ مذہبی جنونیت کی شکار ‘ تشدد پسند فطرت اور دہشتگردانہ کردار کی حامل ایک ایسی عورت ہے جسے امن کا نوبل انعام دیکر صرف امن کی ہی نہیں بلکہ انسانیت کی بھی تذلیل وتوہین کی گئی ہے ۔
برما میں ہونے والی حالیہ جمہوری ‘ ریاستی ‘ حکومتی ‘فوجی ‘ مذہبی و عوامی دہشتگردی نے برما کے پانچ لاکھ سے زائد مسلمانوں کو جبری ہجرت پر مجبورکیا جن میں سے ہزاروں کو برمی فوج ‘ بدھسٹ بھکشو ¶ں اور برمی بلوائیوں نے قتل و ذبح کردیا‘ ہزاروںدریائی و سمندری راستوں سے ہجرت کرتے ہوئے ڈوب کر ہلاک ہوئے ‘سینکڑوں انسانوں کو زندہ جلادیا گیا‘ خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی گئی اور ہزاروں معصوم و شیر خوار بچوں کو پر جانوروں سے بد ترین مظالم ڈھائے گئے ۔غرض برما میں وہ سب کچھ ہوا جس کا تصور نہ تو شیطان نے کیا تھا ‘ نہ ایسی سوچ کبھی فرعون کی رہی تھی اور نہ ہی یزید نے کبھی اس بارے میں سوچا تھا ۔زندہ انسانوں کو زندہ بھون کر کھانا ‘ سوئیاں ‘ چھریاں اور کیلیں چبھوچبھو کر انہیں اذیتناک موت دینا ‘ انسانوں کے اعضاءکاٹنا ‘ ان کی بوٹیاں بنانا اور قیمہ کرکے کھاجانا اور اپنی حیوانیت و درندگی کے اس مظاہرے کیلئے نوجوانوں ‘ بزرگوں ‘ خواتین معصوم بچوں اور حتیٰ کہ شیر خوار بچوں تک کو نہ بخشنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آنگ سانگ سوچی کسی امن پسند قوم کی سربراہ نہیں بلکہ درندہ صفت آدم خور قبیلے کی سردار ہے اور برما میں انسان نہیں بلکہ انسان نما بھیڑیئے بستے ہیں جو صرف نوچنا ‘ چیرنا اور بھنبھوڑنا جانتے ہیں ۔
برما میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس پر بلا تفریق مذہب ‘ بلا تفریق رنگ و نسل اور بلا تفریق صنف و عمر ہر دل رورہا ہے اور ہر آنکھ اشکبار ہے “ ساری دنیا کے مہذب افراد اس حیوانیت ‘ شیطانیت اور فرعونیت پر انگشت بدنداں اور ظلم پر نوحہ کناں ہیں مگر طاقتور ممالک ‘ اقوام اور ادارے اس ظلم ‘ بربریت اور حیوانیت کیخلاف خاموش تماشائی ہیں نہ تواقوام متحدہ کی جانب سے برمی مسلمانوں کے تحفظ اور اس مسئلے کے حل کیلئے کوئی سنجیدہ اقدام سامنے آیا ہے ‘ نہ سلامتی کونسل نے اس کا نوٹس لیکر اس ظلم کیخلاف ڈھال بننے کی کوشش کی ہے ‘ نہ تیل پیدا کرنے والے ممالک اوپیک کی جانب سے اس پر مو ¿ثر ردعمل سامنے آیا ہے اور نہ ہی سارک ممالک نے اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کیلئے کوئی اجلاس بلایا ہے حتیٰ کے مسلمانان عالم کے تحفظ کیلئے قائم ہونے والے36ملکی اسلامی فوجی اتحاد کی جانب سے بھی برمی مسلمانوں کے تحفظ کیلئے کسی قسم کا اقدام یا بیان تک سامنے نہیں آیا ہے ‘ عالمی ضمیر خاموش ہے اور اسلامی ممالک و مسلمان مذہبی رہنما ¶ں کی زبانوں پر بھی بوجوہ تالا پڑا ہوا ہے۔
اسرائیل ‘ امریکہ‘ بھارت اور دیگر اسلام دشمن ممالک کے برما میں مسلمانوں کی نسل کشی و قتل عام پر خاموشی کی وجہ تو سمجھ آتی ہے اور چین ‘ جاپان ‘ تبت ‘ نیپال کی بدھ پرستی بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ وہ بدھسٹوں کی جانب سے اسلام پرستوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر لب کشائی نہیں کرسکتے لیکن عرب ریاستوں ‘ پاکستانی قیادتوں ‘ تبلیغی جماعتوں ‘ مذہبی قائدین ‘ مفکران اسلام ‘ دانشوروں ‘ امن پسندوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کی خاموشی سمجھ نہیں آتی۔
برما میں ہونے والی انسانیت کی تذلیل ‘ جمہوری و ریاستی دہشتگردی ‘ فوجی مظالم اور برمی عوام کے حیوانی و شیطانی کردار پر اقوام متحدہ ‘ او آئی سی اور اوپیک سمیت 36اسلامی ممالک کی تشکیل کردہ مشترکہ اسلامی فورس کی خاموشی ان تمام اداروں کی افادیت پر سوالیہ نشان ہی نہیں لگارہی بلکہ اس بات کو بھی ثابت کررہی ہے کہ سرمایہ دارانہ ‘ طبقاتی ‘ طاغوتی ‘ استحصالی ‘ سامراجی اور نظام کے تحت وجود وتشکیل پانے والے یہ تمام ادارے دنیا میں امن کیلئے نہیں بلکہ ظلم کے فروغ کیخلاف آواز اٹھانے والوں کو کچلنے پر مامور ہیں۔
رہی بات انسانی حقوق کے علمبرداروں اور مہذب کہلائی جانے والی ان اقوام کی جو افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں بدھا کے مجسمے ڈھائے جانے پر چراغ پا مجسم احتجاج ہوتی ہیں ‘ کتوں اور بلیوں کے زخمی ہونے پر اشک بہاتی ہیں ان کا علاج کراتی ہیں ‘ جانوروں کی نسل کو معدوم ہونے سے بچانے کیلئے اربوں ڈالر سے مہم چلاتی ہیں ‘ انہیں ان کی آنکھوں پر تعصب کی ایسی پٹی پڑی ہے جس کے پیچھے سے انہیں نہ تو عراق پر امریکی مظالم دکھائی دیتے ہیں ‘ نہ افغانستان میں نیٹو دہشتگردی نظر آتی ہے ‘ نہ شام اوریمن میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر ان کی نگاہ جاتی ہے اور نہ ہی کشمیر میں بھارتی مظالم اور کشمیریوں کی نسل کشی پر اسے اظہار جرا ¿ت ہوتی ہے تو پھر ایسے تعصب پرستوں اور منافقوں سے برما میں ہونے والے مظالم کیخلاف کردار کی ادائیگی کا توقع پانی پر تصویر بنانے کے مترادف ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ہر سمت ایک مجرمانہ خاموشی اور برما کی وزیراعظم آن سانگ سوچی اس خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی فوج ‘ ریاستی طاقت اور مذہبی جنونیت کا شکار”بلوائی “ بن جانے والی برمی عوام کے ذریعے ظلم و بربریت کی ایک ایسی روایت قائم کررہی ہیں جسے اگر فوری طور پر بزور قوت یہیں نہیں روکا گیا تو پھر حیوانیت کا یہ ننگا ناچ دنیا بھر میں پھیل جائے گا اور نفرت کے نفرت اپنے مفادات کیلئے نفرت پھیلاکر دنیا کے ہر خطے کو بد امنی ‘ ظلم ‘ حیوانیت اور بربریت کی آگ میں جھونک دیں گے جس کے بعد دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی بھی کمزورقوم ‘ طبقہ ‘ فرقہ یا گروہ محفوظ نہیں رہے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ برما میں ہونے والے قتل عام کو رکوانے کیلئے دنیا کا ہر فرد اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی اپنی ریاستوں و قیادتوں کو اس ظلم کیخلاف کردار کی ادائیگی کیلئے مجبور کرے اور مسلم ممالک سمیت پوری دنیا کی تمام ریاستیں اس ظلم کیخلاف متحد و یکجا ہوکر برما کو اس ریاستی دہشتگردی سے روکیں کیونکہ برما میں جو کچھ ہورہا ہے وہ صرف ظلم نہیں بلکہ جمہوری ‘ ریاستی ‘ فوجی ‘ مذہبی اور عوامی دہشتگردی ہے اور دہشتگردی پوری دنیا کیلئے سب سے بھیانک خطرہ ہے اس لئے اس دہشتگردی کیخلاف راست اقدام پوری دنیا کے محفوظ مستقبل کیلئے ناگزیر ہوچکا ہے جس میں تاخیر دنیا کے امن و مستقبل کیلئے بھیانک تباہی کے سوا کچھ نہیں لائے گی ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان برمی مسلمانوں کے تحفظ کیلئے مشترکہ اسلامی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے جرا ¿تمندانہ کردار و اظہار کی توقع کررہے ہیںجس میں تاخیر ان کی مایوسی کا سبب ہوگی اور اگر مسلمانان عالم مشترکہ اسلامی فوج سے مایوس ہوگئے تو نہ صرف اس فوجی اتحاد کی افادیت ختم ہوجائے گی بلکہ یہ تادیر قائم بھی نہیں رہ سکے گا اور شاید جنرل راحیل شریف بھی پھر اس مقام و مرتبہ پر فائز نہ رہ سکیں جو آج انہیں مسلمان عالم کے دلوں میں حاصل ہے مصلحتیں جرا ¿ت کی قاتل اور عزت کی دشمن ہوتی ہیں اور مصلحت کوش نہ تو جرا ¿ت مند ہوسکتا ہے اور نہ ہی تادیر عزت دار رہ سکتا ہے ۔
سوشل میڈیا پر اس ظلم کی حقیقی منظر کشی دنیا کے سامنے آنے اور ترکی کے صدر طیب اردگان کی جانب سے کمال جرا ¿ت کے اظہار کے ذریعے اس ظلم پر آواز اٹھانے کے بعد دنیااور بالخصوص مسلمانوں کے سوئے ہوئے ضمیر میں تھوڑی سی حرکت و تحریک تو محسوس ہوئی ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میںا س ظلم کیخلاف مظاہرے و احتجاج کیا جارہا ہے مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہے اور بات بیانات ‘ احتجاج ‘ ہڑتالوں اور دھرنوں سے بہت آگے نکل چکی ہے برما میں جس قدر خون بہہ چکا ہے اگر فوری طور پر دنیا نے اس کا نوٹس لیکر طاقت سے اس قتل و غارت کو روکنے کی کوشش نہیں کی تو سمندر لہو رنگ ہوجائے گا جبکہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب سمندر لہو رنگ ہوتا ہے تو دنیا پر آفتیں نازل ہوتی ہیں ‘ جنگ وجدل کے میدان سجتے ہیں‘ پہاڑ آگ اگلتے ہیں ‘ سمندر خشکی پر چڑھ دوڑتا ہے ‘ زمین کروٹیں لینے لگتی ہے ‘ زلزلے ‘ سیلاب اور طوفان بے حس انسانوں اور اقوام کو بہا لیجاتے ہیں اور قدرت ظالموں کے ساتھ مظلوم کیلئے آواز اٹھانے اور ظالم کا ہاتھ نہ روکنے والوں کوبھی نیست و نابود کردیتی ہے اسلئے کہ قبل اس کے قدرت حرکت میں آئے دنیا کے تمام انسانوں کو بلا تفریق رنگ و نسل ‘ علاقہ و مذہب برما کے مظالم کیخلاف اپنا کردار ادا کرنا چاہئے کیونکہ اگر برما کے مظلومین کے تحفظ سے نظر چرائی گئی اور قدرت حرکت میں آگئی تو دنیا کا ہر ذی نفس غیر محفوظ ہوجائے گا اور دنیا کا کوئی مذہب ‘ کوئی ریاست اور کوئی طاقت انسانوں کے تحفظ کی ضمانت فراہم نہیں کرسکے گی کیونکہ ایک کتے یا بلی کو روڈ کراس کرنے کا موقع فراہم کرنے کیلئے گاڑیوں کو بریک لگانے والے ‘ ایک زخمی جانور کی مرہم پٹی کیلئے اسے اسپتال لیجانے والے اور مچھلیوں و پرندوں کی نسل کشی روکنے کیلئے قوانین سازی کرنے والے اگر انسانوں پر ظلم ‘ ان کی نسل کشی اور ان پر بدترین جبر و تشدد پر خاموش رہیں گے تو یہ ایک ایسا بھیانک جرم ہوگا جس کی سزا شاید دنیا کا قانون و عدالت تو نہ دے مگر قدرت کا قانون اور اس کی عدالت انہیں نہیں بخشے گی ۔
منظم سازش کے تحت مذہبی تشدد کو ہوا دیکرنفرت کی آگ جھلساکر آگ وخون کا طوفان اٹھانے اور برما کی سرزمین کو روہنگیا مسلمانوں کا قبرستان بنانے کے جرم میںبرما کے مذہبی پیشوا آشن وراتھو اور وزیراعظم برما و سربراہ حکمران جماعت آنگ سانگ سوچی کیخلاف پاکستانی وکیل بیرسٹر اقبال جعفری نے عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کردیا ہے !ہوسکتاہے اس مقدمہ کے بعد شاید آنگ سانگ سوچی سے امن کا نوبل انعام واپس لے لیا جائے اور برمی حکومت و مقتدر قوتوں کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ ہوجائے جس کے بعد برمی مسلمانوں پر مظالم میں کمی آجائے اور انہیں نقل مکانی و ہجرت کیلئے محفوظ راہداری فراہم کردی جائے مگر برما میں جو کچھ ہوچکا ہے اس کے بعد یہ ضروری ہوچکا ہے کہ مشترکہ اسلامی فوج برما کیخلاف کاروائی کرتے ہوئے برما کو شیطانوں کے تسلط سے آزاد کرائیں اور مسلم ریاستیں اور قیادتیں متحد ہوکر اسلامک ورلڈ کی بنیاد رکھیں جس کا دارالخلافہ برما کو بنایا جائے کیونکہ قرائن بتارہے ہیں کہ اسلام کی نشاط ثانیہ کا آغاز انشاءاللہ برما سے ہی ہوگا۔