تحریر : مولانا محمد جہان یعقوب برما میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم نے پاکستان کے ہر پیرو جواں کو بے تاب، بے چین، بے قرار اور مظطرب کر رکھا ہے۔ ہر فرد، طبقہ، ادارہ، کمیونٹی اور شعبہ اس سلسلے میں اپنے غم والم اوردکھ وافسوس کا اظہارکررہا ہے۔لوگوں کے دلوں میں جہاد کی آرزوئیں بھی مچلتی ہیں،لیکن وہ ملکی قوانین کی وجہ سے عملی جہادنہیں کرسکتے۔البتہ لسانی،قلمی،مالی،ابلاغی،نشریاتی،مواصلاتی ذرایع سے اپنے مظلوم ومقہوراوربے بس وبے کس مسلمانوں کیساتھ یک جہتی کے اظہارمیں کوئی بھی پیچھے نہیں۔پوری دنیاکی طرح وطن عزیزمیں بھی روزانہ کی بنیاد پراحتجاج اورمظاہرے ہورہے ہیں اوراقوام عالم کے سامنے اس سربریت پراپنااحتجاج ریکارڈکروایاجارہا ہے۔
مالی امدادمیں بھی اہل پاکستان کے عطیات مختلف ذرایع سے برمی مسلمانوں تک پہنچانے کی مختلف این جی اوزاورمخیرحضرات کوشش کررہے ہیں، کئی قابل اعتمادافرادوادارے ایسے ہیں اپنی امدادجن کے حوالے کرکے مطمئن ہواجاسکتاہے،کہ حق حق داروں تک ضرورپہنچے گا۔ سوشل میڈیادورحاضرکی ایک بڑی طاقت ہے،جس کی محنت ہی سے روہنگیامسلمانوں کامسئلہ عالمی میڈیاپرٹاپ ایشوکی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔اس پلیٹ فارم سے ان مظلوم وبے کس مسلمانوں کے حق میں آوازاٹھانے کا سلسلہ توروز اول سے جاری تھا،تاہم شوشل میڈیاصارفین کی جانب سے منظم احتجاج کی روایت کاآغازکراچی کے چندباہمت سوشل میڈیاایکٹیویسٹس نے کیا،جن میں مرزاصوبان بیگ،مفتی رشید احمد خورشید،مفتی طلحہ عتیق الراعی،مولاناسلیم احمد، عامر احمد عثمانی،مولانا محمد نذیر ناصر اورحافظ کمیل احمد معاویہ قابل ذکر ہیں۔
ان نوجوانوں نے عیدکے بعد سے ہی پریس کلب کے باہراحتجاجی مظاہرے کی کمپیئن شروع کردی تھی،جس کے لیے صرف سوشل میڈیاہی کواستعمال نہیں کیا،بلکہ کراچی کے مختلف علاقوں میں بسنے والی برمی کمیونٹیز سے جاجاکرملاقاتیں کیں،ان کادکھڑاویڈیوزکی شکل میں نشر کیا، کراچی کے ماہرین تعلیم،ماہرین قانون،اہل مدارس غرض ہرشعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات کواس جانب متوجہ کیا،وہ اپنی اس کوشش میں کس قدرکام یاب ہوئے اس کاعملی اظہاران کی جانب سے منعقدکیے جانے والے مظاہرے سے بخوبی ہورہاتھا،جس میں تاجربرادری کے نمایندے عتیق میراورصابرفینسی بھی موجودتھے،صحاافی برادری کے نمایاں کالم نگار،بلاگرزاوررپورٹرز بھی موجودتھے،دینی مدارس اورکالجزویونی ورسٹیزکے طلبہ وطالبات ہی نہیں معروف ماہرین تعلیم پروفیسر انوار احمدزئی،ڈاکٹروسیم الدین، ڈاکٹر عبدالماجد، پروفیسر عبدالودود جیسی قدآورشخصیات بھی موجود تھیں،وکلا برادری بھی اپنے روح رواں جسٹس ریٹائرڈوجیہ الدین احمدکے ساتھ آئی ہوئی تھی۔غرض ان کی خلوص بھری آوازپرکراچی کے ہرطبقے کافردوہاں موجودتھااور سب کا ایک ہی نعرہ تھا:برمیوں سے رشتہ کیا،لاالہ الااللہ!
ان نوجوانوں نے ابتدامیں اس مظاہرے کے حوالے سے راقم سے رابطہ کیا،تودوسروں کی طرح میرے دل میں بھی کئی خدشات تھے،کہ کہیں یہ مظاہرہ بدنظمی کاشکار نہ ہوجائے،کہیں کوئی دشمن اس موقع پراپنی خباثت کااظہارکرکے اسے منفی رخ پرنہ لے جائے،کہیں مختلف الخیال طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ باہم الجھ نہ جائیں!لیکن الحمدللہ!یہ ان نوجوانوں کی خلوص بھری شبانہ روز محنت وکاوش کا ہی نتیجہ تھا،کہ یہ تمام اندیشے غلط ثابت ہوئے،مظاہرہ اپنے نام کی طرح مکمل” پرامن” رہااورنظم وضبط کا مثالی مظاہرہ دیکھنے میں آیا،نوجوانوں کی چابک دستی دیکھ کراندازہ ہواکہ قائداعظم نے انھیں اپنی” اصل فورس” کیوں قراردیا تھااوراقبال نے ”جوانوں کوپیروں کااستاد”بنانے کی بات کیوں کی تھی!
اس مظاہرے کے پہلے مقررڈاکٹروسیم الدین،ڈائریکٹرشعبہ تعلقات عامہ اردویونی ورسٹی تھے۔ان کے خطاب کالب لباب یہ تھا کہ: برماکا مسئلہ انسانیت کا مسئلہ ہے اوراگرپاکستان اس مسئلے پرچین سے احتجاج کرے توپاک چین تعلقات پر کوئی اثرنہیں پڑے گا۔ان کے بعدراقم الحروف کو دعوت دی گئی،میں نے ان کی تایید کرنے کے ساتھ ساتھ برمی بھائیوں ،بہنوں سے اظہار یک جہتی اور سفاک بدھسٹ حکومت کے خلاف احتجاج ریکارڈکرنے کے لیے اپنی تمام مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کرشرکت کرنے پرتمام مظاہرین کومبارک باد پیش کی،اس قتل عام کی محرک آنگ سان سوشی سے نوبل پرائزواپس لینے،مسلمانوں کی جان،مال اورآبروحلال قرار دینے والے گوتم بدھ کے نام نہاد پیروکاربدھ بھکشوؤں کے خلاف جنگی جرائم کامقدمہ عالمی عدالت میں چلانے،مظلوم روہنگیامسلمانوں کی بحالی کے لیے پاکستان سے کرداراداکرنے اور برمی مسلمانوں کوتیموراورسوڈان کی طرح علیحدہ ریاست دینے کامطالبہ کیا۔روزنامہ جنگ کے بلاگراورسینئرصحافی سیدعارف مصطفی کاکہنا تھا کہ مسلم ممالک کوایک مشترکہ فنڈقائم کرناچاہیے جس کے ذریعے ایسے آڑے وقتوں میں مظلوم مسلمانوں کی مددکی جاسکے۔
معروف صحافی وکالم نگاراحسان کوہاٹی المعروف سیلانی نے کہا کہ آپ میرے کالموں میں پڑھتے ہی ہوں گے:سیلانی دیکھتارہا،دیکھتا رہا اور دیکھتاچلاگیا،لیکن واللہ!سیلانی نہیں دیکھ سکتاکٹے پھٹے لاشوں کو،پانی میں ترتی بچوں کی لاشوں کو،عفت مآب بہنوں کی برہنہ لاشوں کو،ان کی بات”ازدل خیزدبردل ریزد”کامصداق تھی،جس سے پورا مجمعہ اشک بار ہوگا۔ان کاچیلنج تھاکہ ان تصاویراورویڈیوزکوفیک اورجعلی کہنے والے جس جگہ،جس لیبارٹری سے سے چاہیں انھیں فارنسک کروالیں، اگریہ جعلی ثابت ہوں تومجھے ہرسزامنظورہے۔انھوں نے سوشل میڈیااستعمال کرنے والے احباب کومشورہ دیاکہ غیرمسلموں کوایڈکرکے ان تک یہ آوازپہنچائیں۔ممتازماہرتعلیم پروفیسرانواراحمدزئی نے اس احتجاج کو”بارش کاپہلاقطرہ” اور”بانگ درا،صوت جرس” قراردیا۔انھوں نے تجویزپیش کی کہ اگلے مرحلے پرایک دن کسی معین وقت پربے گھروبے درمسلمانوں سے اظہاریک جہتی کے لیے ہم سب اپنے گھروں کوچھوڑکر باہرنکلیں۔اس حوالے سے سوشل میڈیاٹیم مشاورت کے بعددن اوروقت کااعلان کرے گی۔تاجرراہ نماصابرفینسی نے اپنے خطاب میںتاجربرادری کی جانب سے مظلوم مسلمانوں کی مدداورآبادکاری کے لیے ہرقسم کے تعاون کایقین دلایا۔مظاہرے کے روح رواں مفتی رشیداحمدخورشیدنے کہاکہ یہ اجتماع سوشی کو”ٹیرارسٹ آف دی سینچری” کاخطاب دیتاہے۔آرگنائزرڈاکٹرعبدالماجدنے اس مظاہرے کوکام یاب بنانے اورکثیرتعداد میں شرکت کرنے پرحاضرین کے جذبات کوسراہااوران کاشکریہ اداکیا۔اپنے صدارتی وکلیدی خطاب میں سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس(ر) وجیہ الدین احمدنے مسلم حکمرانوں کی بے حسی کی شدیدالفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے” انسانیت کامسئلہ” قراردیا۔مظاہرے میں شریک لوگوں کی اکثریت کاتعلق سوشل میڈیااورسول سوسائٹی کے منجھے ہوئے تعلیم یافتہ طبقے سے تھا،اس کے باوجودان کاجوش وجذبہ دیدنی اوراخوت دینی کی بہترین تعبیرتھا،جسے اقبال نے اس شعر میں بیان کیا ہےتحریر : مولانا محمد جہان یعقوب
اخوت اس کوکہتے ہیں چبھے کانٹاجوکابل میں تو ہندوستاں کا ہر پیروجواں بے تاب ہوجائے
مظاہرے میں برمی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے اہل وطن کی ایک بڑی تعدادنے بھی شرکت کی ،جن کے دوست،رشتے داربرماحکومت کی مسلم کشی میں شہید،زخمی،بے گھراوربے درہیں۔کمیونٹی کے نمایندینے اس عظیم الشان اظہاریک جہتی پرسوشل میڈیااورسول سوسائٹی کاتہہ دل سے شکریہ اداکیا۔
قارئین!یہ صرف ایک مظاہرے کی روداد ہی نہیں،بلکہ اس میں آپ کے لیے ایک پیغام بھی ہے،وہ یہ کہ یقیناًآپ بھی سوشل میڈیااستعمال کرتے ہوں گے،اگرآپ اپنی کسی مصروفیت یا کراچی سے باہر مقیم ہونے کی وجہ سے اس مظاہرے میں شریک نہ ہوسکے تو،اس کی تلافی کی صورت اب بھی موجود ہے،وہ یہ کہ اول توجس دن اظہار یک جہتی کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑنے کی کال دی جائے،اس دن آپ بھی اس پر عمل کریں،اور دوسرے اپنے اکاؤنٹس،پیجز،بلاگز،اسٹیٹس کے ذریعے اس آواز کوزیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں،خاص طور پرآپ کے ساتھ جو غیرمسلم ایڈہیں ،ان تک یہ آواز پہنچائیں۔
دیے سے دیا جوجلے گا تو روشنی ہوگی دیے زمیں میں اگانے سے کچھ نہیں ہوگا
مولانا محمد جہان یعقوب سینئر ریسرچ اسکالر،جامعہ بنوریہ عالمیہ،سائٹ،کراچی