تحریر: حبیب اللہ سلفی برما میں ان دنوں نہتے مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ عروج پر ہے۔بدھ مت کے پیروکار جن کے مذہب میں کیڑے مکوڑوں کو مارنا بھی درست نہیں سمجھا جاتا وہ مسلمان بچوں، عورتوں اور مردوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر خاص طور پر معصوم بچوں اور عورتوں کی ایسی مسخ شدہ تصاویر نظر آتی ہیں کہ انہیں دیکھنا محال ہے۔ معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو قتل کر کے آگ میں جلایا جارہا ہے۔ خواتین کی عصمت دری کی جارہی ہے۔
حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کئے جارہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھ پائوں میں کیل ٹھونک کر بدھ دہشت گرد’ ان کے جسموں پر کھڑے ہوتے ہیں اور پھر ان کی چیخیں سن کرقہقہے لگا جاکر جشن منائے جاتے ہیں۔ بدھ دہشت گرد ایسے ہولناک مظالم ڈھارہے ہیں کہ تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ وہ ظلم بھی کرتے ہیں اور پھر ان کی تصاویر اور ویڈیوز بناکر سوشل میڈیا پر شیئر کیاجارہا ہے۔اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی اداروں سمیت دنیا میںامن کے نام نہاد دعویدار ملک سب کچھ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیںلیکن کسی کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگ رہی۔
اقوام متحدہ کی اپنی رپورٹ میں اس امر کا انکشاف کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کا قتل کر کے اجتماعی قبروںمیںدفن کیا جارہا ہے اور ایسی کئی اجتماعی قبریں برآمد ہورہی ہیںجن میں سے مسلمانوں کی ہاتھ پائوں بندھی لاشیں ملی ہیں۔افسوسناک امر یہ ہے کہ اس بہیمانہ قتل و خونریزی میں برمی فوج و دیگر سکیورٹی ادارے بھی شامل ہیں اور یہ سب کچھ ان کی سرپرستی میںکیاجارہا ہے۔میانمار کی آنگ سان سوچی جن کے متعلق معروف ہے کہ انہوں نے 90ء کی دہائی سے لیکر 2010ء تک فوجی آمریت کے خلاف جدوجہد کی جس کی بنا پر اسے عالمی سطح پر حقوق انسانی کی بہت بڑی علمبردار قرار دیاجاتا ہے۔ وہ پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کا حصہ ہیں اور حکومتی پالیسیوں پراکثر تنقید کرتی رہتی ہیں تاہم برما میں روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پروہ زبان کھولنے کیلئے تیارنہیں ہیں۔
لاکھوں روہنگیا مسلمان کئی دہائیوں سے بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب برما کی ریاست رخائن میں اذیت ناک زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مغربی برما میںرہنے والے تقریبا آٹھ لاکھ افراد کو بنیادی انسانی حقوق میسر نہیں ہیں۔ وہ دلدلی علاقوںمیںکیڑے مکوڑوںکی طرح رہ رہے ہیں۔انہیں تعلیم حاصل کرنے کی آزادی نہیں ہے۔وہ اپنا علاج معالجہ نہیں کرواسکتے۔ان کے سفرکرنے پر بھی پابندیاں عائد ہیں۔مسلمان بچوں کی سمگلنگ کا سلسلہ عروج پر ہے۔برمی فوج کی سرپرستی میں انسانی سمگلنگ کے گروہ منظم انداز میںکام کر رہے ہیں۔ وہ مسلمانوںکے گھروںمیں زبردستی داخل ہوتے ہیں اور بچوں کو اٹھا کر لیجاتے ہیں کوئی ان کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے۔
Muslim Children Were Burnt Alive In Meiktila – Burma
اس مقصد کیلئے ان گروہوںنے باقاعدہ اڈے قائم کر رکھے ہیں جہاں وہ اغواء شدہ بچوں کورکھتے ہیں اور پھر اپنی مرضی کی قیمت پرانہیں فروخت کردیاجاتا ہے۔برمی فوج خود بھی اس کام میں پیچھے نہیں ہے۔ جیسے ہی کوئی مسلم بچہ چودہ یا پندرہ برس کا ہوتا ہے ۔ وہ زبردستی اسے اپنے ساتھ لیجاتے ہیں اور بیگار کیمپوںمیںرکھ کران سے سخت مشقت کروائی جاتی ہے۔برمی مسلمانوں پر اس قدر سفاکانہ مظالم کے باوجود بدھ دہشت گرد’ ان کا وجود کسی صورت برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ بدھ مت کے پیروکاروں کی جانب سے ہزاروں مسلم بستیوں کو سرکاری سرپرستی میں جلا کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔ لاکھوں افراد ہجرت پر مجبور ہیں۔ وہ کشتیوں پر بیٹھ کر سمندر کی بے رحم موجوں کے سپردبنگلہ دیش کی جانب رخ کرتے ہیں تو انہیں واپس دھکیل دیا جاتا ہے۔
وہ بھوکے پیاسے کسی اور ملک کی طرف بڑھتے ہیں تو کوئی انہیں پناہ دینے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔بدھسٹوں کے ظلم کا شکار ہزاروں مسلمان اب تک شہید ہو چکے اور لاکھوں مسلمان اپنی زندگیاں محفوظ بنانے کیلئے ہاتھ پائوںمار رہے ہیں۔ صرف انڈونیشیا اور ترکی دو ایسے مسلم ملک ہیں جنہوںنے کسی حد تک انہیں پناہ دی ہے لیکن روہنگیا مسلمانوںکی بہت بڑی تعداد اب بھی دربدر کی ٹھوکریںکھانے پر مجبور ہے۔ساری دنیا کا میڈیا چیخ رہا ہے مگرستاون مسلم ممالک کی حکومتوں پر کوئی اثر ہوا ہے اور نہ ہی ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی غیرت بیدارہو رہی ہے۔ صرف چند ایک مذہبی جماعتیںہیں جو میانمار میں بدھسٹوں کی دہشت گردی کے خلاف احتجاج کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ جمعہ کو جماعةالدعوة، جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کی اپیل پر ملک گیر یوم احتجاج منایا گیا اور احتجاجی مظاہروں و ریلیوں کاانعقاد کیا گیا جن میں تمام مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افرادنے بڑی تعداد میں شرکت کی اور برمی مسلمانوں پرڈھائے جانے والے سفاکانہ مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں کی جانب سے بھی یواین کے سیکرٹری جنرل بانکی مون کو خط لکھ کر میانمار میں مظالم رکوانے کی اپیل کی گئی ہے لیکن کہاجاتا ہے کہ بانکی مون چونکہ خود بدھ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے وہ اپنے ہم مذہب بدھسٹوں کی دہشت گردی پرمکمل طور پر خاموش ہیں۔ اقوام متحدہ کا ادارہ اس وقت اپنا وقار کھوچکا ہے۔ اگر وہ دنیا میں اپنے وقار کو بحال کرنا چاہتا ہے تو پھر اسے مسلمانوں کے حوالہ سے اختیار کیا گیا دوہرا معیار ختم کرنا ہو گا۔
Rohingya Moving in Sittwe
مسلم امہ سوال کرتی ہے کہ کیا اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کو برما میں بہتا ہواخون نظر نہیں آتا؟ اور آخرکیا وجہ ہے کہ اس نے برمی مسلمانوں کی نسل کشی پر مکمل خاموشی اختیار کررکھی ہے ؟ ہمیں یہ بات ضرور مدنظر رکھنی چاہیے کہ اسلام و مسلم دشمنی میں سب کافر قوتیں ایک ہیں۔ جہاں مسلمانوں کے قتل اور اسلام، قرآن و نبی اکرم ۖ کی شان اقدس میں(نعوذبااللہ) گستاخی کا مسئلہ ہو گا ‘ ان کے مذہبی پیشوا بھی خاموش نظرآئیں گے۔ مسلمانوں کو اپنی عزتوں و حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کیلئے خود میدان میںنکلنا ہو گا۔مجھے جماعةالدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید کی لاہور میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہی گئی یہ بات بہت اچھی لگی کہ پاکستان اور سعودی عرب میں دھماکے کرنے والے برما اور کشمیر کا رخ کیوںنہیں کرتے جہاںمسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایاجارہا ہے؟۔ چوبرجی چوک میں ہزاروں افراد کے اجتماع سے کیاجانے والا ان کا خطاب انتہائی فکر انگیز تھا۔بہرحال اس وقت روہنگیا مسلمانوں کی امداد میں جماعةالدعوة اور اس کا رفاہی ادارہ فلاح انسانیت فائونڈیشن پیش پیش نظر آتا ہے۔پاکستان میں زلزلہ و سیلاب ہو یا سری لنکا اور انڈونیشیا میں سونامی کامسئلہ’جماعةالدعوةنے ہمیشہ آگے بڑھ کر مدد کا حق ادا کیا ہے۔ بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ ادارہ بیرون ممالک جاکر کس طرح امدادی سرگرمیاں سرانجام دے سکتا ہے؟۔
میں نے یہی بات فلاح انسانیت فائونڈیشن کے ایک ذمہ دار سے پوچھی تو ان کا کہنا تھا کہ جب نیت خالص اور جذبوںمیں سچی لگن موجود ہو تو اللہ تعالیٰ راستے آسان کر دیا کرتا ہے۔ فلاح انسانیت کی جانب سے مظلوم روہنگیا مسلمانوںمیں خشک راشن، پہننے کیلئے کپڑے ، صاف پانی اور دیگر اشیائے ضروریہ فراہم کی جارہی ہیں۔اسی طرح میڈیکل کیمپنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔فلاح انسانیت فائونڈیشن جلد امدادی سامان کی ایک اور بڑی کھیپ انڈونیشیا روانہ کررہی ہے۔ان حالات میں کہ جب روہنگیا مسلمان بے چارگی کے عالم میںدست دعا بلند کئے ہوئے امداد کے منتظر ہیں’ ان کے دکھوں کا مداوا کرنا اورہر ممکن امداد پہنچاناہم سب پر فرض ہے۔ پاکستانی قوم اس حوالہ سے ایک تابناک تاریخ رکھتی ہے۔ ہرشخص کو چاہیے کو وہ روہنگیا مسلمانوں کی مدد کیلئے اپنابھرپور کردارادا کرے ۔ اس مقصد کی خاطر عطیات جمع کروانے کیلئے فلاح انسانیت فائونڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرئوف سے ان کے موبائل نمبر0321-8444992پریا ملک بھرکے تمام شہروں میںموجود ان کے کسی بھی دفتریا مقامی ذمہ دارسے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔