تحریر : انجینئر افتخار چودھری برما کے جنوبی حصے کے قریب اراکان کا صوبہ ہے جہاں روہنگیا قوم کے مسلمان کوئی آٹھ لاکھ کے قریب کیمپوں میں رکھے گئے ہیں اس سے آدھی تعداد تھائی لینڈ سے جڑی بستیوں اور خیموں میں رہ رہی ہے۔انہیں برما نے اپنا شہری تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی بنگلہ دیش انہیں اپنا شہری مانتا ہے۔یہ لوگ آج سے کوئی تین سو بیس سال پہلے یہاں آئے۔ کہتے ہیں یہ لوگ مغلوں اور عربوں کی باقیات ہیں۔ستم ظریفی دیکھئے ان پر مہاتمہ بدھ کے پرچارک ایک وحشی خونخوار کی حیثیت سے جب جی چاہتا ہے حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ایک زمانے میں انہی کے ایک بادشاہ نے بنگال سے بلا کر انہیں اپنا مشیر رکھا اپنی فوج کے عہدوں کا نام مغل فوج کے ناموں جیسا رکھا۔ اس بادشاہ کا نام ناریخالہ سوہان تھا۔جنوب میں رہنے والے برمیوں نے ١٧٨٥ میں ان پر حملہ کر کے قیامت ڈھا دی ۔انہی دنوں کوئی پینتیس ہزار کے قریب بنگال چلے گئے۔یہی مسئلہ آج بھی زندہ ہے حسینہ واجد انہیں بنگالی نہیں مانتی اور برما کی حکمران انہیں اپنا نہیں جانتی۔حالنکہ سقوط ڈھاکہ کے وقت یہ لوگ بنگالی قوم کا حصہ تھے۔ اور انہوں نے بنگلہ دیش کے قیام کے وقت بہاریوں کے ساتھ مل کر پاکستان کا ساتھ دیا ۔شائد یہی تکلیف بنگالی حکمرانوں کو ہے۔جنرل ضیاء الحق نے انہیں عرب میں اور خاص طور پر سعودی عرب میں خصوصی اقاے دلوائے اور پاکستانی پاسپورٹ دئے۔افغانیوں کی طرح ان لوگوں کے پاس بھی پاکستانی پاسپورٹ ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو رہے ہیں ۔اور یہی لوگ بھاری کم رشوت دے کر جدہ کے قونصلیٹ کے حکام کی جیبیں بھی گرم کرتے ہیں۔
کیا آپ میری بات پر یقین کریں گے کہ جدہ میں مقیم ان لوگوں نے ایک ایک پاسپورٹ کی تجدید پر دس سے بیس ہزار ریال لئے۔یہ روہنگین برمی اور افغانی قونصلیٹ کی چیرہ دستیوں کا شکا رہے۔گھٹ انہوں نے بھی نہیں کی اور کسر ہم نے بھی نہیں چھوڑی۔
اراکان صوبے میں بسنے والوں ان مسلمانوں کی زندگیاں اجیرین بنی ہوئی ہیں۔ان کے فوجی کماندار کا کہنا ہے کہ ہم صفائی کر رہے ہیں۔یہ لوگ ہٹلر کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہاں۔ برما کے اس صوبے میں کوئی مسلمان زندہ نہ بچے۔ان لوگوں کی کوئی مدد نہیں کر رہا ۔انہیں بنگالی سمجھا جاتا ہے۔بنگلہ دیش میں حسینہ واجد جو خود ایک لسانیت پرست ہے اسے ان میں کوئی بنگالی نظر نہیں آتا۔
شائد وہ اسلام کے رشتے کو مانتی ہی نہیں۔تھائی لینڈ ملائیشیا، انڈونیشیا سب ان سے کنی کترا رہے ہیں۔آسٹریلیا بھی ان کے قریب نہیں پھٹک رہا ۔یہ لوگ تاریخ کے اس دور سے گزر رہے ہیں جو اکیسویں صدی کا وہ دور ہے جس میں انسانی حقوق کی بات کی جاتی ہے۔ان لوگوں کی کہانی بہت پرانی ہے۔انگریز جب اس خطے میں آئے اور برطانوی راج کے دوران اس نے انہیں جاپانیوں کے خلاف لڑائی میں خوب استعمال کیا۔انگریز کی فوج کے مسلمان لوگ برما کے محاذ پر بڑی دلیری سے لڑے۔ان کی مدد بھی انہی روہنگیا نسل کے مسلمانوں نے کی۔برما کے قیدیوں سے سے جو تفصیلات ہم نے سنیں اس میں ان چپٹی نسل کے مسلمانوں کی داستانیں بھی شامل تھیں۔
جاپانیوں کے ہتھے چڑھنے والے ان لوگوں کے ساتھ بھی وحشیانہ سلوک کیا گیا۔جاپانی فوجی انتہائی وحشی تھے انہوں نے سائوتھ کوریا کے لوگوں کے ساتھ بھی جنسی تشدد کیا جس کا ماضی قریب میں واویلا مچا رہا اسی طرح ان کی عورتوں کے ساتھ جنسی سلوک روا رکھا گیا۔انگریز تو چلا گیا لیکن ان کی شام الم ختم نہ ہوئی۔یہ لوگ زہین و فطین تھے ١٧٤٥ میں ان کے ایک بادشاہ نے انہیں اپنے دیس بلایا تھا اور مشیر کے طور پر رکھا لیکن بعد میں برمی لوگوں نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی۔اور یہ لوگ سمندروں کے راستے کراچی ممبئی سے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچے۔اگر آپ مکہ گئے ہوں تو جدہ سے طائف کی طرف جاتے ہوئے بائیں ہاتھ سرخ بلاکوں سے بنی پہاڑ پر ایک بستی ہے یہ وہ برمی لوگ ہیں جو دو اڑھائی سو سال پہلے مکہ پہنچے ہجرتوں کے سلسلے چلتے رہتے ہیں سعودی عرب کے مکہ اور مدینہ میں زار روس کے ظلم کے شکار بخاری بھی عام نظر آتے ہیں۔ضیاء دور میں بہت سے برمی پاکستانی پاسپورٹ لے کر پہنچے ان کے ایک لیڈر مختار میرے خاص دستوں میں سے تھے جن سے نوے کی دہائی میں واسطہ رہا۔جدہ اور مکہ مدینہ میں گاڑیوں کی پوشش کا کام یہ لوگ کرتے ہیں اور پوری مارکیٹ پر ان کا قبضہ ہے۔روہنگیا ایک قوم ہے ایک نسل ہے اور اب اس کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔
پاکستان کے ٹوٹنے کا بڑا نقصان ان لوگوں کو ہوا ہے ورنہ وہ ملک جو افغانوں کو چالیس لاکھ کی تعداد میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے بارڈر قریب ہونے کی صورت میں وہ ان لوگوں کی مدد کر سکتا تھا۔میں سوشل میڈیا پر دیکھ رہا ہوں کہ چند شرپسند لوگ جو سعودی عرب سے نفرت کرتے ہیں وہ ٣٤ ملکوں کی فوج کے نام پر سعودی عرب اور جنرل راحیل پر کڑی تنقید کر رہے ہیں۔یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ شائد نجد کے صحرائوں میں ان ممالک کے فوجی گھوڑوں پر سوار اپنے پائوں رکابوں یں رکھے کھڑے ہیں۔ایسا ہر گز نہیں ہے۔چلئے یہ ہی بتا دیجئے کہ جس یمن پر حملے کی بات ہو رہی تھی کیا ٣٤ ممالک کے فوج جنرل راحیل کی سربراہی میں لڑ رہے ہیں۔جو کام کرنے کا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے ہم اسمبلی میں ایک متفقہ قرارداد لائیں اس کے بعد اسلامک کانفرنس کا اجلاس طلب کریں اور اس معاملے کو اقوام متحدہ میں اٹھائیں۔وزیر اعظم پاکستان جنرل اسمبلی میں خطاب کرنے جا رہے ہیں وہاں مطالبہ کریں کہ نوبل انعام یافتہ برما کی سربراہ سے یہ اعزاز واپس لیا جائے۔سوشل میڈیا پر پٹیشین فائل کریں ۔اس دور میں یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ سینے پر بم باندھ کر ڈھاکہ سے برما میں داخل ہوں اور پھٹ جائیں۔ایسی کوئی بھی حرکت ان کی قربانیوں کا خاتمہ کر دے گی۔پاکستان اقوام متحدہ کی فوج کے امن دستے بھجوانے کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے۔اسے چاہئے کہ ترکی کی مدد سے ان کے لئے امداد کے سامان وہاں پہنچانے کی کوشش کرے ڈاکٹروں کا گروہ وہاں جا کر زخمیوں کی مدد کرے۔اس دوران اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں۔اس مسئلے کو انسانی حقوق کا مسئلہ بنا کر آپ یورپ امریکہ سے عوامی مدد لے سکتے ہیں۔یاد رکھئے عراق جنگ میں جنگ کے خلاف جتنے بڑے جلوس یورپ اور امریکہ میں نکلے اتنے اسلام آباد اور تہران میں نہیں نکلے تھے۔پاکستانی قوم کے جذبے کو سلام مگر یہ کام جذبات سے زیادہ ہوشمندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔جوش نہیں ہوش۔